دو مسلم نوجوانوں کی عمر قید کی سزاء کو لکھنوء ہائی کورٹ نے ختم کیا
ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات سے بری، جمعیۃ علماء کی بڑی کامیابی
ممبئی : لکھنؤ ہائی کورٹ نے آج یہاں دہشت گردی کے الزامات کے تحت ۱۵؍ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید دو مسلم نوجوانوں کی عمر قید کی سزاؤں کو ختم کردی ، یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ مہاراشٹر (ارشد مدنی)قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی ۔
گلزار اعظمی مقدمہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزمین سلیم قمر اور الطاف حسین کو ۱۴؍ جنوری ۲۰۰۱ء کو اتر پردیش پولس نے دھماکہ خیز مادہ رکھنے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے تحت گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضہ آر ڈی ایکس، زندہ کارتوس ، ٹائمر، بیٹری و دیگر مواد ضبط کرنے کا دعوی کیا تھا جس سے وہ رام جنم بھومی ایودھیا(فیض آباد) میں بم دھماکہ کرنا چاہتے تھے ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ فیض آباد کی خصوصی گنگسٹر عدالت نے الطاف حسین اور سلیم قمر کو تعزیرات ہند کی دفعات 121(A),122 کے تحت عمر قید کی سزاسنائی تھی اسی طرح دھماکہ خیز مادہ کے قانون کی دفعات 3,4,5 کے تحت دس سالوں کی سزاء تجویز کی تھی ۔
نچلی عدالت سے ملی سزاؤں کے خلاف لکھنؤ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی تھی جس کی سماعت گذشتہ دو سالوں سے جاری تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس چوہان اور جسٹس اننت کمار نے ملزمین کو ایک جانب جہاں عمر قید کی سزاؤں سے بری کردیا وہیں دھماکہ خیز مادہ والے قانون کے تحت تجویز کی گئی دس سال کی سزاء والے معاملے کی سماعت ملتوی کردی۔ملزمین کے مقدمات کی پیروی کے لیئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر دہلی سے ایڈوکیٹ عارف علی اور لکھنوء کے وکیل محمو دعالم کو مقرر کیا گیاتھاجنہوں نے لکھنؤ ہائی کورٹ کے سامنے مدلل بحث کی جس کے بعد آج بالآخیر ملزمین کو دی گئی عم قید کی سزاؤں کو ختم کردیا گیا ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ عمر قید کی سزا سے بری کیئے جانے کے بعد ملزمین کی اگلے چند ایام میں جیل سے رہائی ہوجائے گی اور بقیہ مقدمہ کی اپیل سے بھی انشاء اللہ ملزمین باعزت بری ہوجائیں گے ۔
مقدمہ کے تعلق سے دفاعی وکیل عارف علی نے بتایا کہ انہوں نے لکھنوء ہائی کورٹ میں استغاثہ کی خامیوں کی نشاندہی کی جس کی بناء پر ملزمین کو عمر قید کی سزاؤں سے باعزت بری کردیا گیا ۔
عارف علی نے بتایا کہ اس پورے معاملے میں استغاثہ نے سنگین غلطیاں کی اور بے گناہوں کو ایک طویل عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے پر مجبور کیا ۔
انہو ں نے کہا کہ ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات کے تحت گرفتار ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لیئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت حاصل(سینکشن) حاصل کرنا قانون ضروری ہے لیکن اس معاملے میں خصوصی اجازت حاصل نہیں کی گئی اور ایف آئی آر کی کاپی دو ہفتوں کے بعد عدالت میں پیش کی گئی جس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کے ملزمین کے خلاف جھوٹامقدمہ قائم کیا گیا تھا ۔
ایڈوکیٹ عارف علی نے کہا کہ دھماکہ خیز مادہ کے قانون کے اطلاق کے لیئے جو اجازت نامہ حاصل کیا گیا تھا وہ بھی فرضی معلوم ہوتا ہے لہذا ملزمین جلد ہی دھماکہ خیز مادہ کے قانون کی دفعات 3,4,5 سے بھی باعزت بری ہوجائیں گے۔