القاعدہ معاملہ:مولانا انظر شاہ کی ڈسچارج عرضداشت پر فیصلہ ٹلا
ممبئی: ممنوع دہشت گرد تنظیم القائدہ سے تعلق رکھنے کے الزمات کے تحت گرفتار مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی و دیگر ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچار ج کیئے جانے والی عرضداشت پرآج فیصلہ متوقع تھا لیکن دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے اسپیشل این آئی اے جج شری رتیش سنگھ نے دفاعی وکلاء سے معذرتاً کہا کہ فیصلہ لکھانے کا عمل جاری ہے اور وہ ابتک مکمل نہیں ہوسکا ہے نیز انہیں امید ہیکہ معاملے کی اگلی سماعت یعنی کے۱۷؍ جنوری تک فیصلہ لکھانے کا عمل مکمل ہوجائے گا اور وہ فیصلہ صادر کردیں گے۔یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی ۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں مقدمہ کی سماعت پر ایڈوکیٹ ایک ایس خان نے عدالت کو بتایا تھاکہ این آئی اے نے ملزمین کو القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جبکہ اس تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں نیز ملزم انظر شاہ کے قبضہ سے تحقیقاتی دستوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس معاملے میں کوئی اقبالیہ بیان دیا ہے ۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خا ن نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ جس سرکاری گواہ نے انظر شاہ کے خلاف بیان درج کرایا تھااور اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہوچکا ہے اور اس معاملے کے دیگر ملزم محمد آصف اور عبدالسمیع نے بھی انظر شاہ کے تعلق سے کوئی بیان نہیں دیا ہے ۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے عدالت کو ملزم محمد آصف کے تعلق سے بتایا کہ تحقیقاتی دستوں نے عدالت میں ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں پیش کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ملزم پاکستان ٹریننگ حاصل کرنے کے لیئے گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد اس نے دیگر ملزمین مین پیسے بھی تقسیم کیئے تھے ۔
عیاں رہے کہ اسی سال کی ۶؍ جنوری کی شب نو بجے مولانا انظر کو دہلی پولس نے ممنوع تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور تحقیقاتی دستہ نے عدالت کو بتایا تھاکہ ملزم کو ممنوع تنظیم القاعدہ کے لیئے کام کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے فارغ مولانا عبدالرحمن جنہیں دیگر ملزمین کے ہمراہ ممنوع تنظیم القاعدہ سے تعلق کی بناء پر گرفتا ر کیا گیا تھا کی ڈسچارج عرضداشت پر گذشتہ ہفتہ سینئر کریمنل وکیل نتیار راما کرشنن اور ایڈوکیٹ ساریم نوید نے بحث کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عبدالرحمن اور دیگر ملزمین کے خلاف یو اے پی اے کی فعات کے تحت مقدمہ بنتا ہی نہیں کیونکہ تحقیقاتی دستوں نے ان کے خلاف جو ثبوت اکٹھا کیئے ہیں وہ قانون کی نظر میں قابل قبول ہے ہی نہیں لہذا ملزم کو ڈسچار ج کیا جائے۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ اس معاملے میں گرفتار چاروں ملزمین عبدالرحمن، مولانا انظر شاہ قاسمی، عبدالسمیع اور محمد آصف کی قسمت کا فیصلہ اگلے ماہ کی ۱۷؍ تاریخ کو متوقع ہے ۔