تین طلاق پرالہ آباد ہائی کورٹ کے جج کا تبصرہ بے معنی:مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی:ایک بار میں ایک ساتھ تین طلاق کا اگرچہ قرآن میں ذ کر نہیں ہے اور رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوناپسند فرمایا ہے لیکن ایک نشست میں تین طلاق کو تین ہی مانا ہے۔ اس طرح کے واقعات کئی بار پیش آئے اور بعد میں آنے والے خلفائے راشدین اور علما نے بھی اسے اسی بنیاد پر صحیح تسلیم کیا ہے۔ ایسے میں الہ آبادہائی کورٹ کے جج کا یہ ریمارکس کہ ایک ساتھ تین طلاق قرآن سے شاید ثابت نہیں ہے اور یہ غیر آئینی ہے، قطعی صحیح نہیں ہے۔ یہ بات آج جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے پریس کے لئے جاری اپنے بیان میں کہی۔
سید ارشد مدنی نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کے حال ہی میں کئے گئے اس تبصرے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ محترم جج صاحب کے ذہن میں یہ بات ہے کہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے شریعت کے تمام احکامات کا دارومدار صرف قرآن پر ہی ہے اور قرآن میں تین طلاق کا حکم نہیں ہے۔لہذا اس تعلق سے شریعت کی صحیح تصویر پیش کرنا ضروری ہے۔پہلی بات تویہ ہے کہ تین طلاق کا ذکر قرأن کے اندر ہے۔اللہ نے دوسرے پارے میں فرمایا ہے کہ فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیر ہ لیکن اصل مقصود اس حقیقت کوسامنے لاناہے کہ قرأن صرف الفاظ کا نام نہیں ہے، جن کو ہم پڑھتے ہیں یا جو الفاظ کاغذ پر لکھے جاتے ہیں بلکہ قرآن الفاظ اور ان کے اندر چھپے ہوئے معنی جن کو مرادِ خدا وندی کہا جاناچاہئے، ان دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اللہ کے نبی قرأن کی آیتوں کولکھوا دیتے تھے، صحابہ یاد کر لیتے تھے اور رسول اللہ ﷺبھی قرأن کے حافظ تھے۔ رسول اللہ ؐاور صحابہ قرآن کو نمازوں میں بھی پڑھتے تھے اور نماز کے علاوہ بھی تلاوت کیا کرتے تھے۔ان الفاظ کے وہ معنی جن سے فرشتہ رسول اللہ ؐکو با خبر کرتا تھا اللہ کے نبی صحابہؓ کے سامنے ان معنی کو بیان فرماتے تھے۔ بار بار اور مختلف پیرایوں میں بیان کرتے تھے تاکہ الفاظ کی طرح معنی بھی ذہن نشین ہوجائیں اور اللہ اپنے کلام سے بندوں کوکیا پیغام دیناچاہتا ہے، اس سے وہ با خبر ہو جائیں۔
اس کے علاوہ بھی حسب ضرورت موقع بہ موقع اللہ کی طرف سے جبریل امین(فرشتہ) کو پیغام لے کر بھیجا جاتا تھا۔جب ضرورت پڑی، جس طرح کی ضرورت پیش آئی، حکم آگیا اور نبی کریم ؐ نے اللہ کا وہ حکم صحابہ تک پہنچا دیا۔اسی لئے وحی کی دو قسمیں ہیں قرأن کو وحیئ متلو کہا جاتا ہے، جس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی جانب سے ہیں جبکہ حدیث کو وحیئ غیر متلو کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ معنی اللہ کی طرف سے ہیں لیکن الفاظ کی پابندی نہیں ہے۔ رسول اللہ ا ن معنی کو اپنے الفاظ میں اپنے مخاطب کو دیکھتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کبھی کسی پیرائے میں تو کبھی دوسرے پیرائے میں۔یہ دونوں صورتیں وحی کی صورتیں ہیں اور دونوں ہی شریعت کی بنیاد ہیں کیونکہ دونوں کا بھیجنے والا اللہ اور لانے والا فرشتہ (جبریل امین) ایک ہی ہے اور جس ذات کی جانب پیغام بھیجا گیا ہے وہ بھی واحد رسول کریمؐ ہیں۔اس لئے یہ دونوں وحی کی صورتیں اسلام اور شریعت کی بنیاد ہیں۔ جو ِشخص یہ سمجھتا ہے کہ صرف قرأن ہی اسلام کے احکامات کے لئے بنیاد اور دلیل ہے ا س کا مطلب ہے کہ وہ حدیث کو جو وحی کی دوسری قسم ہے ناقابل قبول سمجھتے ہوئے حجت اور دلیل نہیں مانتا۔ یہ اسلامی شریعت اور اصول کے باا لکل خلاف ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ایک بار میں تین طلاق کاذکر اگرچہ قرأن میں نہیں ہے اور اگرچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نا پسند فرمایا ہے لیکن تین طلاق کو تین ہی مانا ہے اور اس طرح کے اور بھی واقعات کئی بار پیش آئے ہیں۔ انکے بعد خلفا راشدین اور علما ئے کرام نے، جو قرأن و حدیث کی اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے احادیث کی ہی بنیاد پر ایک بار میں تین طلاق دینے کو درست ہی مانا ہے۔ اگرکچھ علمامیں اس معاملے پر اختلاف ہوا ہے تو وہ کوئی خاص بات نہیں ہے کیونکہ دنیا میں شاید ہی ایسا کوئی موضوع ہو جس پر اختلاف رائے نہ پائی جاتی ہو۔لیکن اس بات کوپیش نظر رکھاجانا چاہئے کہ جولوگ رسول اللہ کی حدیث کی بنیاد پر ایک بار میں تین طلاق کو تین ہی سمجھتے ہیں وہ امت کے نزدیک کیا مقام رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث کو سمجھنے میں ان لوگوں کاامت کے نزدیک کیا مقام اور معیار ہے کیونکہ چاروں ائمہ ؒاس پر متفق ہیں کہ اگر یکبارگی تین طلاقیں دے دیں توناپسندیدگی کے باوجود تین ہی ہوں گی۔
رہی یہ بات کہ اگر خدا نخواستہ کورٹ نے فیصلہ ہمارے خلاف دے دیا تو ہمارا کیا موقف ہوگا تو اگر یہ فیصلہ نچلی عدالت کا ہوا تو ہم اپنے دستوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اسے اوپری عدالت میں لے جائیں گے اور ہمیں توقع ہے کہ انشا اللہ سپریم کورٹ سے فیصلہ ملک کے دستور کے مطابق ہوگا یعنی ملک کے آئین نے اقلیتوں کو اپنے پرسنل لا ء اور مذہب پر چلنے کا جو حق دیا ہے اس کوپامال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کیونکہ ملک کے آئین سے محترم ہمارے لئے ملک کا کوئی اور قانون نہیں ہے۔اس کے باوجود اگر عدالت عالیہ سے بھی ہمارے خلاف فیصلہ آتاہے تو ہم اپنی پرسنل زندگی میں پرسنل لاء کو اتار کر ہی زندہ رہیں گے اور اسی پر مرناچاہیں گے پھر بھی اگر کوئی مسلمان اس کے خلاف عدالت جاتا ہے تو اس پر افسوس کرنے کے سوائے اور کیاجا سکتا ہے۔ باقی مسلم اکثریت مسلم پرسنل لاء کے مطابق ہی جینا اور مرناپسند کرے گی۔ مولانامدنی نے کہاکہ مودی حکومت ان ایشوز کو اس لئے اٹھانے میں پیش پیش ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کوختم کر دیا جائے۔