کالا دھن،بڑے بزنس مین اور مردہ اپوزیشن
عادل فراز
نوٹ بندی کے بعد ملک میں افراتفری کا ماحول ہے۔عام آدمی اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری نہیں کرپارہاہے۔دو ہزار کا نوٹ دیکھ کر دوکاندار ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بھوت پریت دیکھ لیا ہو۔کسان زراعت کے لئے پریشان ہے۔ کوئی اسپتال میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ رہاہے۔کسی کی شادی رک گئی ہے تو کوئی نوٹ بدلوانے کے غم میں لائن میں ہی کھڑا کھڑا دم توڑ گیا۔پھر بھی عام آدمی پر امید ہے کہ بلیک منی پر شکنجہ کسا جائیگا۔غریب اپنی غربت کے خاتمہ کے خواب دیکھ رہاہے تو فقیر جن دھن یوجنا کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے کا منتظر ہے۔ان سب مسائل سے پرے بی جے پی اپنی”پریورتن یاترا“ میں مصروف ہے۔وزیر اعظم سے لیکر بی جے پی کا عام کارکن بھی نوٹ بندی پر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپا رہا ہے۔مگر غریب کے ذہن میں سوال تو بہت کلبلاتے ہیں جواب نہیں ملتا۔کیونکہ اس ملک میں اس وقت سوال پوچھنا سب سے بڑا جرم ہے۔کوئی بعید نہیں سوال پوچھنے والے”کو دیش دروہی“کہکر قتل کردیاجائے۔مگر پھر بھی سوا ل تو پوچھے ہی جائیں گے۔آخر بی جے پی ”پر یوورتن یاترا“ میں جو رقم خرچ کررہی ہے وہ اتنی جلدی نئی کرنسی میں کیسے تبدیل ہوگئی؟۔آیا بی جے پی والے اب بھی کالا دھن یعنی پرانے نوٹوں کا استعمال کررہے ہیں یا ۸ نومبر سے پہلے ہی انکی ساری بلیک منی وہائٹ کردی گئی تھی؟۔ کیونکہ پریوورتن یاتراؤں پرہونے والا خرچ معمولی نہیں ہے۔ٹینٹ کا سامان،مائک،کھانا اور دوسرے اخراجات بی جے پی کہاں سے پورے کررہی ہے؟۔ایسی ”پرویورتن یاتراؤں“ میں کہ جنکے اخراجات کا کسی کو صحیح علم نہیں ہے وہاں کالا دھن کے دشمن ہمارے وزیر اعظم اپنی کارکردگی اور فعالیت پر جذباتی انداز میں روتے دکھائی دیتے ہیں مگر اسکا جواب نہیں دیتے کہ آخر بی جے پی کا پارٹی فنڈ اتنی جلدی وہائٹ کیسے ہوگیا۔؟اور اگر وہائٹ منی کا استعمال کیا جارہاہے تو اتنی بڑی رقم نئی کرنسی میں کیسے تبدیل کی گئی؟۔
سوال یہ بھی ہے کہ سرکار صرف عا م آدمی کے بینک کھاتوں پر نظر رکھنے کی فکر میں کیوں ہے؟۔کیا سارا بلیک منی کسانوں،رکشہ چلانے والوں،مزدوروں اور چھوٹے تاجروں کے پاس ہی ہے؟نوٹ بندی کے فورا بعد بڑے بزنس مینوں اور کمپنیوں پر کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟۔ اڈانی،امبانی،ٹاٹا،برلا،واڈرا،اور نہ جانے کتنے کالا دھن رکھنے والوں پر اب تک سرکار خاموش کیوں ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا مندروں میں جمع اربوں کھربوں کی رقم کی بھی جانچ کرائی جائیگی۔؟ اگر ہندوستان کے سبھی مندروں اور مذہب کے نام پر کالا بازاری کرنے والے اداروں کی کی پڑتال کی جاتی تو کالا دھن کی حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی۔
ہندوستان کا کوئی بھی شہری جو کالا دھن نہیں رکھتا وہ مودی جی کے اس فیصلے کا حامی ہے۔مگر اسکے سوالات دوسرے ہیں۔وہ کالا دھن ختم کرنے کی مہم میں وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہے مگر یہ پوچھنا اسکا قانونی حق ہے کہ آخر گجرات کے دھنوانوں اور بڑے بزنس مینوں کا کالا دھن ۸ نومبر سے پہلے وہائٹ کیسے ہوگیا یا پھر ان پر شکنجہ کسنے کے لئے سرکار کوئی دوسرا لائحہ ئ عمل رکھتی ہے۔۸ نومبر سے پہلے نوٹ بندی کی خبر سرکار کے چہیتے بزنس مینوں کے پاس کیسے پہونچ گئی؟ کیا پہلے سرکارصرف غریب اور عام آدمی کی جیب پر نظر ٹکائے ہوئے ہے۔آیا سرکار ہندوستان میں کالا دھن رکھنے والے دھنوانوں کو نہیں پہچانتی۔اگر ایسا ہے تو مودی جی پورے ملک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں ہیں۔یہ عوام ہے جو ہر مصیبت سہہ کر بھی ووٹ کی چوٹ دیکر اپنا حسا ب چکتا کرلیتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مودی بھگتی کے دام میں الجھ کر کچھ لوگ گونگے بہرے اور اندھے بن گئے ہیں۔سوتے ہوئے کو جگانا آسان ہے مگر جو سویا ہوا بن جائے اسے جگانا مشکل ہے۔جو لوگ سرکار کے ہر فیصلے کی آنکھ موند کر حمایت کررہے ہیں وہ ملک کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
بہر حال ابھی بی جے پی اترپردیش جیتنے کی مہم پر نکلی ہوئی ہے۔بی جے پی کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ اترپردیش میں اکثریت کسانوں اور زمین داروں کی ہے۔خاص کر مغربی اترپردیش اپنی ذرعی پیداوار کی بنیا د پر پہچانا جاتاہے۔اگر کسان کو کسی بھی طرح کی مشکل ہوتی ہے تو بی جے پی کے لئے بڑی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔قصبوں میں موجود بینکوں میں آس پاس کے درجنوں گاؤں والوں کے کھاتے ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شہروں سے زیادہ لمبی قطاریں قصبوں کے بینکوں میں لگی ہوئی ہیں۔وزیر اعظم کو چاہئے تھا کہ وہ دیہات والوں اور کسانوں کے لئے الگ سینٹر قائم کرتے تاکہ انکے لئے آسانیاں ہوتیں۔اگر عام آدمی اور کسانوں کو پریشانی ہوئی تو ڈر ہے بی جے پی کی پرورتن ریلی انکا سیاسی مخول نہ بن جائے۔
نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد اپوزیشن نے شور مچانے کی بہت کوشش کی مگر اپوزیشن کے پاس اب کوئی اچھا لیڈر نہیں بچا ہے۔کانگریس راکھ کا ڈھیر ہے اور راکھ کے ڈھیر میں راہل گاندھی کبھی کبھی چنگاری کی طرح بھڑکتے ہیں مگر پھر راکھ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔کانگریس اس وقت ایک مردہ جماعت ہے۔جسکا جنازہ غلام نبی آزاد اور چدمبرم جیسے بوڑھے سیاست دانوں کے کاندھوں پر ہے۔شاید کوئی ایسا رہنما پیداہو جو کانگریس کے لئے عیسیٰ کی طرح مسیحا بن جائے اور مردہ میں جان پھونک دے۔یہ مسیحا راہل گاندھی تو ہرگز نہیں ہوسکتے۔