دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کرسکتی :مولانا سید ارشد مدنی
ممبئی : بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتیں ملک کو بربادی اور تباہی کی طرف لے جارہی ہیں اور ملک میں بسنے والوں کے درمیان نفرت کا زہر گھول کر دیش کو بانٹنے کی سازشیں رچ رہی ہیں، مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ برادران وطن سے محبت اور یکجہتی کا اظہار کرکے نفرت کی سیاست کو اکھاڑ پھینکے اور ہندؤں ودیگر اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کرکے الفت ومحبت کی فضا کو قائم کریں، اسلامی اخلاق کو پیش کریں اور مخلوق خدا کو امن وآشتی کا پیغام دیں، اسلئے کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہمارے بزرگوں کی قربانیاں اس کی آزادی میں شامل ہیں، ہم اس کو برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ مولانا سید ارشد مدنی صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند نے مرادآباد میں ’’قومی یکجہتی‘‘ کے عنوان سے ہونے والی عظیم الشان کانفرنسمیں مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔
مولانا ارشد مدنی نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سے ۱۳۰۰؍ سو سال قبل کشتی کے ذریعہ مسلمان کیرالہ پہنچے تھے اور اپنے ساتھ اپنا پرسنل لاء لائے تھے، جو ۱۳۰۰؍ سو سال سے اس ملک میں محفوظ چلا آرہا ہے، دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جاری سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے گھر واپسی کا شوشہ چھوڑا گیا، پھر مسلمانوں اور عیسائیوں سے ووٹ کا حق چھینے کی بات چلائی گئی، مگر اس ملک کی جنتا نے ان باتوں کا کوئی اثر نہیں لیا،کیوں کہ اس دیش میں فرقہ پرست لوگ کم ہیں، ہندؤں کی اکثریت امن پسند سیکولر مزاج اور بھائی چارہ پر یقین رکھنے والی ہے، اس لئے آپ لوگ بھی جذباتی ہونے کے بجائے ہوشمندی سے کام لیں اور یہ سمجھ لیں کہ اگر ملک کی تقدیر کو بدلنا ہے تو پیار ومحبت کو اپنا فریضہ بنانا پڑیگا، انہوں نے بہار اور دہلی کے انتخابات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی مذکورہ دونوں علاقوں میں صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی وجہ سے نہیں ہاری ہے؛ بلکہ ہندوؤں نے بھی فرقہ پرست پارٹی کو ناپسند کرتے ہوئے اس کو ہرانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ مولانا مدنی فرمایا کہ واقعی اگرحکومت کو مسلمان مرد وخواتین سے ہمدردی ہے تو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کو بحال کرے، تاکہ 51% (اکاون فیصد) مسلم طلبہ اس میں داخل ہوکر تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکیں۔
اس سے پہلے جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر مولانا سید اشہد رشیدی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ دیش تاریخ کے خطرناک دور سے گذر رہا ہے، فرقہ پرست طاقتیں ملک کے دستور اور اس کے سیکولر آئین کو آگ لگانا چاہتی ہیں، ہم اس ملک کے محافظ ہیں، ہمیں یقین ہے کہ یہ ملک باقی رہے گا تو جمہوریت سے باقی رہے گا، اگر اس کے جمہوری تانے بانے سے کھلواڑ کیا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا اور اس کی سا لمیت پارہ پارہ ہوجائے گی؛ اس لئے ہم دستور ہند کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دیں گے اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، انہوں نے کہا کہ آج جمعیۃ کے اسٹیج پر ایک طرف اگر علماء کرام اور مسلم قومی رہنما ہیں تو دوسری طرف ہندو ، سکھ، عیسائی اور دلت مذہبی وسماجی شخصیات بھی رونق افروز ہیں، جس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکار کی پالیسیوں سے دیش کا ہر طبقہ بے چینی اور کڑھن محسوس کررہا ہے اور اقلیت واکثریت سب ملک کے مستقبل کی طرف سے فکر مند ہیں، انہوں نے مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرست لوگ ہندؤں اور مسلمان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، یہ صرف مسلمانوں ہی کے دشمن نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے بھی دشمن ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ کرتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور پیار ومحبت کو بڑھاوا دینا ہوگا اور قرآنی تعلیم کے مطابق برائی کو اچھائی، بدسلوکی کو حسن سلوک اور نفرت کو محبت سے مٹانا ہوگا۔ ’’قومی یکجہتی کانفرنس‘‘ کا یہی پیغام ہے۔
انہوں نے مسلم پرسنل لاء کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم ایک طرف جنتا سے اخوت وبھائی چارہ سے رہنے کی تاکید کرتے ہیں تو دوسری طرف سرکار کو یہ وارنگ بھی دیتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کو نہ چھیڑا جائے اور ہرگز اس میں مداخلت کی کوشش نہ کی جائے، ورنہ تو مسلمان اس کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوجائے گا۔ اور دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی حفاظت کے لئے سیکولر مزاج برادران وطن اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ہمراہ ملک دشمن عناصر کو سبق سکھانے کے لئے میدان میں آجائے گا۔
صدر جلسہ نے مسلمانوں کو اس بات کی بھی تاکید کی کہ وہ طلاق کا استعمال غیر اسلامی طریقہ پر ہرگز نہ کریں۔ آج اگر فرقہ پرستوں کو طلاق ثلاثہ کو بنیاد بنا کر مسلم پرسنل لاء کے خلاف زبان درازی کا موقع ملا ہے تو اس میں ہماری بے اصولیوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے، اگر ہم شرعی حکم کے مطابق بوقت مجبوری رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کے لئے ایک طلاق رجعی دے کر بیوی کو چھوڑ دیں تو عدت میں رجوع کا حق ہوگا اور عدت کے بعد اگر دونوں پھر میاں بیوی کی طرح رہنا چاہیں تو محض دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں، مگر غصہ میں آپے سے باہر ہوکر ایک ساتھ تین طلاق دینا شریعت سے ناواقفیت اور جہالت کی علامت ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، مگر اسی کے ساتھ یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ کسی شخص کی غلطی اور جہالت کی وجہ سے یا کسی حکومت کی جھوٹی ہمدردی جتانے کی وجہ سے شریعت کے حکم میں ترمیم یا تبدیلی ناممکن ہے، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے، مگر شریعت کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی نے اپنے بیان میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے قومی یکجہتی کے حوالے سے کی جانے والی کوشش کو سراہا اور کہا کہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا اسی میں ہے کہ ہندو مسلم اور دیگر اقلیتیں آپسی میل جول اور پیار ومحبت سے رہیں، تاکہ نفرت پھیلانے والوں کا منہ کالا ہو اور دیش امن وامان کا گہوارہ بنے۔ اجلاس میں جناب اچاریہ پرمود کرشنم نے اپنے مخصوص انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کل ہمارے ملک کو نفرت کی سیاست کرنے والوں نے برباد کرنے کی ٹھان لی ہے، جن کا ہم جمعیۃ علماء کے جھنڈے تلے مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں، یہ دیش صرف نہ ہندؤں کا ہے، نہ مسلمانوں کا ہے؛ بلکہ یہ ہر ہندوستانی کا ہے، انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ سرکار کو کسی کے مذہب میں دخل دینے اور اس میں ترمیم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اس سے آئینی حقوق متأثر ہوں گے اور جمہوریت کو نقصان پہنچے گا، سکھ سماج کے جناب سردار گرویندر سکھ، عیسائی سماج کے جناب پادری پال سارسوت اور دلت سماج کے لیڈر جناب دھنی راؤ پینتھر وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بھر پور الفاظ میں قومی یکجہتی کی ضرورت کا اظہار کیا اور کھل کر اس بات کا اعلان کیا کہ ہم مولانا ارشد مدنی صاحب اور جمعیۃ علماء ہند کے قدم سے قدم ملا کر دیش کے تحفظ اور سیکولرازم کی حفاظت کے لئے چلنے کو تیار ہیں۔ آپ ہمیں جہاں آواز دیں گے اپنے پاس کھڑا ہوا پائیں گے۔