اردو زبان و ادب کا تصور اودھ کے ادبی سرمائے کے بغیر ممکن نہیں
شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی میں منقد بین الاقوامی اودھ ادبی فیسٹیول میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کا خطاب
لکھنؤ :سرزمین اودھ نے تہذیبی اور روایتی اقدار کے ساتھ ساتھ تحقیقی اور لسانی سطح پر اتنا بڑا ادبی سرمایا پیدا کیا ہے۔ اردو زبان و ادب کا تصور اودھ کے ادبی سرمائے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اردو کے چار اہم اور بڑے شعرا میر ؔ، غالبؔ، انیس ؔ اور اقبال ؔ نے اس سرزمین کو محوربناکے کامیاب شاعر بنے ہیں۔ان خیالات کا اظہار کیینیڈا سے تشریف لائے اردو کی عالمی شخصیت اور معروف ادیب و محققق ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کیا۔اپنے کلیدی خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ادبی سرمائے کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کے لئے اہم اقدام اٹھائے جائیں۔ آج دنیا میں چار سو ملیئن سے زائد آبادی لکھنے، پڑھنے اور بولنے غرض کسی نہ کسی شکل میں اردو زبان کا استعمال کر رہی ہے۔یہ ہماری تساہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج اردو زبان صرف کان کی زبان بن کر رہ گئی ہے آنکھ کی نہیں۔اردو کے فروغ کے بجائے آج ہمیں اردو تحفظ بورڈ کی تشکیل کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اردو کے رسم الخط کی اہمیت اور اس کی ضرورت بھی تفصیل سے گفتگو کی۔
اس سے قبل صدر شعبہئ اردو لکھنؤ یونیورسٹی ڈاکٹر عباس رضا نیر نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے دو روزہ اودھ ادبی فیسٹیول کا مختصر تعارف پیش کیا اور کہا کہ شعبہئ اردو اودھ کی تاریخٰ اور تہذیبی وراثت کو سنجونے اور اس کے ادبی اقدار کے تحفظ اورفروغ کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ اودھ اور خاص کر لکھنوی تہذیب کے بنیادی عناصر کے ساتھ عصری ہم آہنگی کے لئے ہم اپنے پورے تدریسی عملے کے ساتھ تہذیب پسند معززین کی رہنمائی میں ایسے ثقافتی پروگرام کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایس بی نمسے نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اودھ سارے بھارت میں اردو زبان و ادب کے ساتھ ہی تہذیب کی ایک اعلیٰ مثال ہے اورلکھنؤ کی تہذیبی روایت اس کا گہوارا ہے۔ میری خوش بختی ہے کہ میں ایسی یونیورسٹی کا سربراہ ہوں جہاں کا اردو شعبہ ان تہذیبی قدروں کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔اپنی اردو دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ میں اس نیک عمل میں ہمہ وقت شریک ہوں۔یونیورسٹی انتظامیہ مستقبل میں کسی بھی طرح کی کوئی کمی نہیں آنے دے گا۔
افتتاحی دور کے اجلاس کے بعد شروع ہوئے پہلے تکنیکی اجلا س کی صدارت پروفیسر آصفہ زمانی، پروفیسر فضلِ امام رضوی، پروفیسر صابرہ حبیب، ڈاکٹر صبیحہ انور اور ڈاکٹر انیس انصاری نے کی۔اس اجلاس کے مقالہ نگاروں میں سب سے پہلے مسقط سے تشریف لائیں فرزانہ اعجاز نے مشترکہ تہذیبی روایت سے شرابور افسانہ نما مقالہ ”ہم تو ٹھہرے لکھنوی“ پیش کیا۔کولکاتا سے تشریف لائے معروف نقاد اور ادیب پروفیسر نعیم انیس نے لکھنؤ اور کلکتہ کے ادبی اور تہذیبی حوالے سے اپنا پر مغز مقالہ ”ادب اردو کی نگری: مٹیا برج“ پیش کیا۔اپنے اس مقالے میں نعیم انیس نے لکھنؤ اور کلکتہ کے مٹیا برج جسے منی لکھنؤ بھی کہا جاتا ہے کی تہذیبی روایتوں کا بڑے عالمانہ ڈھنگ سے ذکر کیا۔ممبئی سے آئے مقبول شاعر احمد وصی نے اس موقع پر اپنی نظم ”کاہلی“ پیش کی۔ایک اورغیر ملکی شخصیت میتھیو ڈالٹن نے جو امریکہ سے تشریف لائے تھے اپنے مقالے میں اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ آج لوگ اردو کو پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کو مشکل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقالے میں اودھ اور لکھنؤ کی ادبی اور تہذیبی روایت کی بے باکی سے تعریف کی۔
مقبول شاعر والی عاصی کی بیٹی محترمہ عائشہ صدیقی نے اس تکنیکی اجلاس میں اپنا افسانہ”گھومتی چاک کی کیل “ پیش کیا جو لکھنوی تہذیب کے پس منظر میں تھا۔اپنے صدارتی کلمات میں ڈاکٹر صبیحہ انور نے سوال اٹھایا کہ لکھنؤ کی علمی ادبی اور شعری دلکشی میں کمی کیوں آئی اور اس کا کھویا ہوا وقار کیسے واپس کیسے واپس آئے گا۔ڈاکٹر انیس انصاری نے اپنے صدارتی کلمات محققین کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ۷۵۷۱ اور ۷۵۸۱ کی جنگوں کا اور اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے کیا اثر قبول کیا، اس پر تحقیق ہونا چاہیے۔
پروفیسر صابرہ حبیب نے مقالہ نگاروں اور شاعروں کی تعریف کرتے ہوئے یہ سوال بھی قائم کیا کہ مسائل بتانے والے حل کیوں نہیں بتاتے۔پدم شری پروفیسر آصفہ زمانی نے”لکھنؤ میں اردو ادب کل آج اور کل “ کے موضوع پر اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر فضل امام نے اپنے صدارتی بیان میں کہا کہ اودھ صرف لکھنؤ نہیں ہے اور شعور اور فکر کا نام تہذیب ہے۔اور اردو کے صحیفہ ئ کمال کی آخری آیت میر انیس تھے۔ا پروفیسر احمد عباس ردولوی نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اودھ کا کلچر ہی ہمیں ہمیشہ کے لئے جو ڑ سکتا ہے۔
اس موقع سلیم رضوی، کلکتہ، رسرچ اسکالر اییان اینڈرسن، ناصر جرولی، سلطان سرور، شاہد لکھنوی، وقال رضوی (ایڈیٹر اودھ نامہ)، رضوان مہدی، ملک زادہ پرویز، ڈاکٹر عبد السلام، ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی،پروفیسر جمال نصرت، ڈاکٹر منصور شکیل گیاوی،ڈاکٹر اسلم کاکوروی،ڈاکٹر ہارون رشید، ڈاکٹر راکی جان اور شعبہئ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر علی سلمان رضوی، ڈاکٹر منتظر مہدی، ڈاکٹر عبید الرحمن اور ریسرچ اسکالرز اجے کمار سنگھ، یاسر انصاری،اختر سعید، کرار حسین، قاضی اسد،جمیل احمد، کملیش کمار، دیپک کمار اورتمام طلبا و طالبات سمیت شہر کی مشہور و معروف علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔