جس شخص نے گاندھی کا خون کیا، وہ بھی ایک گئو رکشک تھا
تبسم فاطمہ
یہ زعفرانی سیاست کے لیے غور وفکر کرنے کا دور ہے۔ گئو رکشا کو لے کر مودی کے دو بیانات بھاجپا کے گرتے گراف کے ساتھ خوف اور اندیشے کی کہانی بھی بیان کرتے ہیں جس کا ا حساس مودی کے ساتھ آر ایس ایس کو بھی ہے۔ اس لیے وشو ہندو پریشد، ہندو مہا سبھا اور بجرنگ دل والوں کی پھٹکار سننے کے بعد بھی آر ایس ایس نے گئو رکشا کی آڑ میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں پر لگام کسنے کی چھوٹ دے دی ہے۔ اپازیشن کا ماننا ہے کہ یہ بیانات 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات اور پنجاب کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں لیکن یہ آدھا سچ ہے، آدھا سچ 2019 کا لوک سبھا انتخاب بھی ہے جس کا وقت آہستہ آہستہ قریب آتا جارہا ہے۔ یوپی میں اگر شیلا دکشت کا سیاسی کارڈ کامیاب ہوتا ہے تو برہمن ووٹ کا گیارہ فی صد مودی کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اس طرح اگر 21 فیصد دلت اور 18 فیصد سے 20 فیصد مسلمان بھی بھاجپا کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو پھر اترپردیش میں اقتدار میں آنا مودی اور بھاجپا کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ گئو رکشا پر دیے گئے بیان میں مودی نے مسلمانوں کا کہیں تذکرہ نہیں کیا لیکن یہ مانا جارہا ہے کہ دلت کے ساتھ مسلمانوں کو بھی خوش کرنے کے لیے یہ بیان دیا گیا ہے۔ مودی کی مجبوری ہے کہ وہ کھل کر مسلمانوں کا نام نہیں لے سکتے۔ اس لیے ٹوپی نہ پہننے سے لے کر روزہ افطار پارٹی اور عید بقرعید کے موقع پر مبارکباد کے پیغام میں بھی وہ سرد مہری سے کام لیتے رہے ہیں۔ اور ان کی اسی ادا سے ہندوئوں اور انتہا پسندوں کے درمیان ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا ہے۔ وی ایچ پی نے صاف طور پر مودی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اس طرح کے بیانات سے نہ صرف ہندو خفا ہوں گے بلکہ اگلے لوک سبھا انتخاب میں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی کو اپنے بیانات کے پیش نظر ہندو تنظیموں کی مخالفت کا یقین نہیں تھا یا پھر ہاتھ سے جاتے ہوئے دلت ووٹ بینک کو حاصل کرنے کے لیے مودی کو یہ خطرہ اٹھانا پڑا۔ اس سے بھی بڑا سوال ہے کہ کیا مودی کے یہ بیانات دلتوں کو خوش کرسکیں گے؟ کیا مودی نے صرف دلتوں کا نام لے کر دلت اور مسلم ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے؟ مودی کے بیان کے فوراً بعد ایک مشہور دلت ایکٹوسٹ چندر بھان کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں کا موازنہ دلتوں سے نہ کیجئے۔ مسلمان بھی دلتوں سے فاصلہ رکھتے ہیں۔ دلت لیڈران کی اکثریت چندربھان کی طرح نہیں سوچتی، لیکن یہ کہنا مشکل نہیں کہ دلت سیاست بھی آہستہ آہستہ دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذر خیز ہے ہے ساقی، اب اسی تصویر کا دسرا رخ ملاحظہ کیجئے، دو برسوں میں عدم رواداری اور عدم تحمل کا جو ماحول ملک میں دیکھنے کو ملا، اس نے آہستہ آہستہ ملک کی بڑی آبادی کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ محض دو برسوں میں ملک کی کیا حالت ہوگئی ہے۔ ہندو مسلم دوستی اور قومی یکجہتی کے چیتھڑے اڑے تو مرکزی حکومت کے خلاف غم وغصہ اور بغاوت کا دور بھی شروع ہوا۔ سب سے زیادہ متاثر مودی کا گجرات ماڈل ہوا۔ جہاں بغاوت کی کمان ہاردک پٹیل نے سنبھال لی۔ حکومت ہاردک پٹیل اور اونا میں دلتوں پر ہونے والے ظم اور پھر دلتوں کی بغاوت سے اس طرح ناکام ہوئی کہ مودی کے ہوش اڑ گئے۔ آناً فاناً آنندی بین پٹیل پر زیادہ عمر کا دبائو بڑھا کر ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ پنجاب، گجرات، گوا میں عآپ کے بڑھتے قدم نے بھی مودی کو اس بات کا احساس دلایا کہ جو تصویر 2014 میں تھی وہ اب نہیں ہے۔ سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ رمضان کے موقع پر پنجاب میں کئی گرودواروں نے مسلمانوں کے لیے افطار پارٹی کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ اپنے دروازے نمازیوں کے لیے بھی کھول دیے۔ یہ فرقہ پرست اور فاشسٹ عناصر کے خلاف خاموش احتجاج کی ایسی آواز تھی جسے دبانا مشکل تھا۔ ابھی حال کے دنوں میں بنارس، الہ آباد اور مختلف شہروں میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر ایسی کئی مثالیں قائم کیں، جہاں یہ پیغام صاف تھا کہ فرقہ پرست ہزار کوشش کرلیں لیکن ہندو مسلم اتحاد پر آنچ نہیں آئے گی۔ اسی اتحاد کو توڑنے کے لیے پہلے راشٹر پریم کا راگ الاپا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان غدار ہیں اور ان میں کبھی بھی حب الوطنی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ نفرت کی آگ تیز کرنے کے لیے پرانا فارمولہ یعنی گئو سرکشا کا سہارا لیا گیا۔ شروعات 28 ستمبر 2015 سے ہوئی جب دادری میں بیف کے نام پر اخلاق کو پہلا شکار بنایا گیا۔ پھر اسی سال 18 مارچ کو 35 سال کے مظلوم انصاری اور 12 سال کے امتیاز کو جھارکھنڈ کے جھابڑا گائوں میں درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔ جبکہ یہ دونوں محض گائے بیلوں کی خریداری کرتے تھے۔ ادھم پور میں زاہد حسین کو گئو رکشا کے نام پر مارڈ الا گیا۔ ہماچل پردیش میں نعمان کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ پنجاب میں ٹرک ڈرائیوروں کو پیٹا گیا۔ مدھیہ پردیش میں مردوں کے ساتھ عورتوں پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑ گئے۔ بہار سے راجستھان اورمہاراشٹر تک ایسے واقعات کی کوئی کمی نہیں جہاں نشانہ مسلمان تھے۔
دلتوں پر جب تک ظلم ہوتا رہا برہمن وادی سماج، آرایس ایس اور مودی چپ رہے۔ لیکن جب دلتوں نے بغاوت کی صدا بلند کی تو مودی کو دلت ووٹ بینک کھسکتا ہوا محسوس ہو، 2016 میں یہ دلت مودی کے ساتھ تھے۔ پنجاب میں دلت 29فی صد ہیں اور یہاں بھی مودی بھاجپا کی زمین کھسکتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ مودی پہلے ہی اتراکھنڈ اور اروناچل پردیش کی جنگ ہار گئے ہیں، اگر یوپی اور پنجاب میں بھی شکست مل رہی ہے تو پھر گوا اور گجرات کے بھی ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ پیداہوجائے گا۔ یہ سلسلہ قائم رہا تو 2019 کا انتخاب بھی ان کیلئے پریشانیاں کھڑی کر سکتا ہے اور اسی لیے اپنی ایک جذباتی تقریر میں مودی یہاں تک کہہ گئے کہ مارنا ہے تو مجھے مارو۔ میرے دلت بھائیوں کو مت مارو، لیکن مودی یہ بھول گئے کہ سیاسی سطح پر دلت اب ایک مضبوط ووٹ بینک ہیں اور عام دلت بھی اپنے ووٹ کی قیمت و اہمیت سے واقف ہے— 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں اسی دلت ووٹ بینک نے دلتوں کی مسیحا کہی جانے والی بی ایس پی سپریمو مایاوتی کو نظرانداز کر بھاجپا کا ساتھ دیا تھا۔ اوراسی لیے ایس پی، کانگریس تک بھاجپا کے ساتھ ساتھ دلتوں کو اپنی طرف کرنے کی سیاست میں مصروف ہیں۔ اور اس لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ دلت مسلمان جس پارٹی کے لیے بھی متحد ہوں گے، اس پارٹی کی فتح کا راستہ آسان ہوجائے گا۔
یہ تجزیہ ضروری ہے کہ ایک جمہور ی ملک کے محافظ نے دلتوں کی بات کرتے ہوئے مسلمانوں کو نظر انداز کیوں کیا ؟ گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا میں ان گئو رکشوں کے لئے بدمعاش اور دشمن کا لفظ استعمال کیا تھا۔ 16 مارچ 1921کے ینگ انڈیا میں گاندھی جی نے لکھا۔ دراصل گئو رکشاکے نام پر کچھ بدمعاش ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ فروری 1942 میں گاندھی جی اور ونوبا بھا وے نے گئو سیوا پر ایک بڑی میٹنگ کو خطاب کیا۔ 1947میں جب فرقہ وارانہ فساد کا دور جا ری تھا، 24جولائی کو گاندھی نے گوسوامی کرپا تری کے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ جو اپنے کو گئو رکشک کہتے ہیں وہ دراصل گئو بھکشک (مارنے والے ) ہیں۔ گاندھی نے یہ بھی لکھا کہ آپ جیسوں کے خیالات مذہب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ گاندھی اپنے وقت میں گئو رکشکوں کے ارادے کو جان گئے تھے۔ اور انہیں اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ آگے آنے والے وقت میں یہ گئو رکشک ان کا قتل بھی کر سکتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس شخص نے گاندھی کا خون کیا وہ بھی ایک گئو رکشک تھا۔
گئو رکھشا کا معاملہ آئین اور قانون سے جڑا ہو معاملہ ہے۔ لیکن ابھی تک جذباتی بیان کے سوا مودی نے کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو ان گئو بھکشوں کو قانون کے دائرے میں لاکر ان کے خلاف سزائیں تجویز کر سکے۔ ہندو آرگنائزیشن اپنا کام کر رہی ہے۔ کہیں ترشول اور کہیں تلواریں تقسیم کی جا رہی ہیں، کہیں مسلم مخالف کیمپ لگائے جارہے ہیں، سنگھ اب عورتوں اور بچوں کو اسلحے کا استعمال سکھا رہا ہے۔ لیکن یہ سب جرم کے دائرے کے باہر ہے کیوں کہ ان لوگوں کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن اچانک آرایس ایس کو اپنا کھیل بگڑتاہوا نظر آرہاہے۔ مسلم دلت اتحاد سے زیادہ ہندو مسلم دوستی کی کوششوں نے سارے کھیل پر پانی پھیر دیا ہے۔ آگے کیا ہوگا، سیاست کے نئے کھیل اور قلابازیوں کو دیکھنا خطرناک بھی ہوگا اور دلچسپ بھی۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اردو روزنامہ انقلاب سے شکریہ کے ساتھ)