بشارالاسد پر دوہرے قتل کے جرم میں اشتہاری قرار
شام کے صدر بشار الاسد اور ان کے بھائی ماہر الاسد سمیت اسد رجیم کے کئی ارکان کے خلاف امریکا میں ایک خاتون صحافی اور فرانسیسی فوٹو گرافر کے قتل کے الزام میں مقدمہ کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ امریکی عدالت نے صدر اسد اور ان کے بھائی کو دُہرے قتل کے مقدمہ میں اشتہاری مجرم قرار دیا ہے۔
ذراےُ کے مطابق واشنگٹن کی ایک عدالت میں شامی صدر اور ان کے بھائی کے خلاف جاری مقدمہ کی کارروائی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ بشارالاسد اور ماہر الاسد پر فروری 2012ء کو حمص میں امریکی صحافیہ میری کوِلون اور فرانسیسی فوٹو گرافر ریمی اوچلیک کے قتل کے میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ نے بھی اس مقدمہ کی تفصیلات شائع کی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سنہ 2012ء میں حمص میں شام کے سرکاری فوجیوں نے دانستہ طور پر ایک راکٹ حملے میں صحافیہ میری کولوِن کو نشانہ بنایا جس کےنتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئی تھیں۔ اپنی ہلاکت سے قبل وہ شام میں جاری جنگ کی کوریج کے ساتھ ساتھ سماجی بہبود کی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہ چکی ہیں۔
مقتولہ کی ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ میری کولون اور دسیوں دوسرے عام شہریوں کو راکٹ حملوں میں دانستہ طور پر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس لیے انہوں نے کولوِن کے قتل کے مقدمہ میں بشار الاسد اور ان کے بھائی ماہر الاسد کا نام بھی شامل کیا ہے۔ وہ دونوں اس لیے مقدمے کا حصہ بنے ہیں کیونکہ حمص میں بمباری اور راکٹ حملے ان کے حکم سے کیے گئے تھے۔ دونوں بھائیوں کے خلاف دوہرے قتل کا مقدمہ کولمبیا کی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔
مقتولہ کی ہمشیرہ Cathleen Colvin نے شامی صدر بشارالاسد اور فوج کے بریگیڈ 4 کے سربراہ بریگیڈیئر ماہر الاسد کے خلاف دائر مقدمہ میں موقف اختیار کیا ہے کہ دونوں بھائی کولوِن اور فرانسیسی فوٹو گرافر کے قتل میں بالواسطہ طور پر ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر اسد اور ان کے بھائی سمیت فوج کے سینیر حکام کو بھی معلوم تھا کہ وہ جس جگہ کو راکٹ حملے کا نشانہ بنا رہے ہیں وہاں پر غیرملکی صحافی بھی موجود ہیں۔
امریکی صحافیہ میری کولوِن اور اس کے ساتھ ہلاک ہونے والا فرانسیسی فوٹو گرافر ریمی۔
صحافیہ کے قاتل کو قیمتی گاڑی کا تحفہ
شام میں سنہ 2011ء سے حکومت کے خلاف جاری عوامی بغاوت کی تحریک کے دوران شامی حکومت نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت صحافتی برادری کو تخت مشق بنانے کی مہم جاری رکھی۔ شامی فوج کے ہاتھوں جنگی جرائم بے نقاب کرنے کی پاداش میں کئی صحافیوں اور نامہ نگاروں کو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑے۔
شامی حکومت نے طے شدہ حکمت عملی کے تحت صحافیوں اور مخالف لکھاریوں کے قتل کے لیے ’کرائسز سیل‘ قائم کیا۔ اس کے علاوہ صحافیوں کی گرفتاری اور ان کے قتل کے لیے ری پبلیکن گارڈز کے کمانڈوز کی بھی خدمات حاصل کی جاتی رہیں۔ سنہ 2012ء کو شامی فوج کے جس عہدیدار نے امریکی صحافیہ کو راکٹ حملے کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا اس کی شناخت خالد الفارس کے نام سے سامنے آئی ہے۔ مغربی اخبارات اور ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ ماری کولفن کے قاتل کو بشارلاسد کے بھائی بریگیڈیئر ماہر الاسد کی جانب سے سیاہ رنگ کی ایک بیش قیمت کار تحفے میں دی گئی۔ یہ کار 56 سالہ کولوِن اور ان کے ساتھی کیمرہ مین کے قتل کا انعام تھا۔
امریکی عدالت میں دائر 32 صفحات کو محیط مقدمہ میں مقتولہ کی ہمشیرہ نے لکھا ہے کہ شامی انٹیلی جنس اہلکار اس وقت سے ماری کولوِن پر نظر رکھے ہوئے تھے جب وہ بیروت میں قیام پذیر تھیں اور وہاں سے اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کے لیے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ بعد ازاں جب وہ شام میں داخل ہوکر میدان جنگ کی براہ راست کوریج کرنے لگیں تو ان کی زندگی کو مزید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔
مقتولہ امریکی صحافیہ میری کولوِن نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے کئی سال میدان جنگ میں کوریج کرتے گذارے۔ سنہ 1991ء میں عراق میں کوریج کے آٹھ سال بعد وہ مشرقی تیمور چلی گئیں۔ سنہ 2001ء میں سری لنکا سے رپورٹنگ کی۔ اس دوران گولے کا چھرہ لگنے سے ان کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوچکی تھی اور وہ آنکھ کو سیاہ پٹی سے ڈھانپے رکھتی تھیں۔