یو اے ای عرب اتحاد کا حصہ رہے گا: عادل الجبیر
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات مثبت اور نتیجہ خیز رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کے بحران کے حوالے سے امریکا اور سعودی عرب دونوں ایک صفحے پر ہیں، بحران کے حل کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ذراےُ کے مطابق وزیرخارجہ عادل الجبیر نے ان خیالات کا اظہار واشنگٹن میں شہزادہ محمد بن سلمان کی امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی نائب ولی عہد نے صدر اوباما سے ملاقات میں اقتصادی ویژن 2030ء کے بارے میں امریکی صدر کو آگاہ کیا۔
عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ دونوں رہ نماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تزویراتی تعلقات اور باہمی تعاون کے فروغ پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس رپورٹ کو منظرعام پر لائے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون کے حملوں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ریاض نے القاعدہ اور داعش کی کسی موڑ پر مدد کی ہے۔
سعودی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر جنگ جاری رکھے گا اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمن جنگ کے بارے میں سامنے آنے والے موقف کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ امارات عرب اتحاد کا حصہ ہے اور آئندہ بھی وہ اس کا حصہ رہے گا۔ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی یادت میں یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھی امارات کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ایران سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تہران عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی سازشیں کررہا ہے۔ اس حوالے سے ریاض کا موقف واضح ہے جس میں کوئی ابہام نہیں اور نہ ایران سے متعلق موقف میں کوئی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔
عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملکوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی ذمہ داری ایران پرعاید ہوتی ہے۔ ایران کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ختم، ایرانی انقلاب کی درآمد روکنا اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازشوں سے باز رہنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور امریکا کے شام کے حوالے سے موقف میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ دونوں ملک شام کے سیاسی حل کے حامی اور اعتدال پسند اپوزیشن کی حمایت کرتے ہیں۔ دونوں ملک بشار الاسد کا شام کے سیاسی مستقبل میں کردار ادا کرنے کو مناسب خیال نہیں کرتے اور شام کے تمام ریاستی اداروں کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔