نیر سلطانپوری کی یادمیں شعری نشست کا انعقاد
سلطانپور کے مشہور شاعر سید توکل حسین نیر سلطانپوری کی یادمیں ایک شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام نیر سلطانپوری کے مکان پر سید عاصم رضا کے زیر اہتمام کیا گیا جس کی صدارت جناب عبد الکریم (ایڈوکیٹ) اور مہمان خصوصی جناب رزمی سلطانپوری ڈاکٹر سبط حسن نقوی صاحب، ریڈر عربی فارسی کالج خواجہ معین الدین چشتی، لکھنؤ رہے اور نظامت کے فرائض خادم سلطانپوری نے انجام دئے۔ اس پروگرام میں رزمی سلطانپوری، شفق، خادم اجمل، شمیم پرتاپ گڑھی، حیدر، منور، نور، شاداں، نیاز، عامل صدیقی، سہیل مرزا، سلیم نجمی، ڈاکٹر وجہ القمروغیرہ نے اپنے کلام پیش کئے۔
عبد الکریم ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی بیان میں اپنے کو نیر صاحب کا شاگرد بتایا اوران کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ مرحوم خاص طور پر ماہنامہ شمع ادب کی دو دہائی تک بے لوث خدمت انجام دی اور وہ بذات خود اس کے ایڈیٹر اور پبلشر رہے۔ شمع ادب کاشعری مشاعرہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں ایک یادگار لمحے کے طور پر محفوظ ہیں۔آپ نے حکومت اترپردیش سے مانگ کی کہ ایسی عظیم شخصیت کے اوپر ابھی تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا ہے لہٰذا موجودہ ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ نیا دور سے ان کے لئے خصوصی شمارہ نکالے۔ وہاں پر موجود سارے شعراء و سامعین نے اس کی تائید کی۔
نیر سلطانپوری کے نواسے عاصم رضا نے سب سے پہلے نعت پاک کا ایک مطلع اور ایک شعر پڑھا وہ یہ ہے
ہے محمد مصطفی اللہ کے پیارے حبیب
جن کی چشم فیض سے جاگے زمانے کے نصیب
نصرت خالق رہی ہر دم نبی کے ساتھ ساتھ
جب اٹھے نصر من اللہ جب چلے فتحاً قریب
اس کے بعد غزل کا ایک مطلع دو شعر
میری خاک کندن ہے جھلکے نہ جھلکے
زمیں میری تارہ ہے چمکے نہ چمکے
میں جاں دے رہاہوں فریب کرم پر
خدا جانے پھر جام چھلکے نہ چھلکے
حیا بن گئی ترجمان محبت
نقاب رخ یار سرکے نہ سرکے
مرے جرم بیدار کو شک ہے نیر
سر دار بھی آنکھ جھپکے نہ جھپکے
دوسری غزل کے چند شعر
تقدیر بدل ہی گئی تعزیر سے پہلے
دیوانے کو ہوش آ گیا زنجیر سے پہلے
دیکھی ہے محبت حوصلہئ دل کی کرامت
یہ بات نہ تھی آہ میں تاثیر سے پہلے
ٹھہرانہ کوئی حسن کے معیار نظر پر
بندے نہیں خاکے تری تصویر سے پہلے
نیرہے یہاں زیست بھی اک سعیئ مسلسل
تدبیر بھی تدبیر ہے تقدیر سے پہلے
وہ شعراء جن کے نشست میں کافی پسند کیا گیا۔
بے چین ہو رہی ہے زلیخائے زندگی
ہوگاسکوں نہ یوسف دوراں ترے بغیر
رزمی سلطانپوری
ہم نے جینے کا وہاں جا کے ہنر سیکھا ہے
گڑگڑا کر جہاں مرنے کی دعا کرتے ہیں
سبط حسن نقوی قسیم
رکھ تخیل و نصرت کے ہنر سے مطلب
معنیئ فکر کہاں قافیہ پیمائی میں
ڈاکٹر وجیہ القمر
بندہ بھی جنہیں بننے کا آیا نہ سلیقہ
بن بیٹھے ہیں وہ آج خدا دیکھئے کیاہو
شاداں سلطانپوری
ہرطرف چرچہ ہوا ہے تجھ سے مرے عشق کا
لوگ اب کہنے لگ ہیں ترا دیوانہ مجھے
نور سلطانپوری
اپنی یادوں کے دریچوں کوکھلا رہنے دو
شاید آ جائے کوئی شام سے پہلے پہلے
شمیم پرتاپ گڑھی
ایسا اسیر گردم ایام کچھ ہوئے
تاریک شب کو لوگ سحر بولنے لگے
منورسلطانپوری
ملک سے اپنے سبھی کو پیار ہونا چاہئے
ہر بشرمیں جذبہئ ایثارہونا چاہئے
حیدر سلطانپوری
باغباں صیاد کے کردار میں ہے
پہلے مرغان چمن سہمے نہیں تھے
یہ مقتل یہ دار و رسن سب دیکھ کر تجھ کو لرزاں ہو گئے
جذبوں کو انگار بنا لے اور جنوں کو شعلہ کر
ڈاکٹر سلیم نجمی
شیر مردوں سے تہی دست ہوا بخیہئ عشق
خاک صحرا کی اڑاتی ہے ہوامیرے بعد
ڈاکٹر نیاز سلطانپوری
اردو زباں وہ پیاری زباں ہے لفظ لفظ
موتی ہے آئینہ ہے ستارا ہے پھول ہے
ڈاکٹر سہیل مرزا