آج کا دورا تنہائی بے حسی اور ذاتی مفاد پرستی کا دور ہے۔ اس دور میں عام طور پر لوگ بے حسی کے ساتھ جی رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ زندگی کاٹ رہے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ پر سوچنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتے۔ مثال کے طورپر پینے کے پانی کی کمی کا مسئلہ ہو یا صوتی آلودگی کا مسئلہ۔ بغیر کسی تردد کے بے دریغ پانی کی بربادی ہو رہی ہے۔ اثرات اور نتائج سے بے پرواہ ہوکر تیز اور بے ہنگم آوازوں کے استعمال میں کوئی جھجھک تک محسوس کی جاتی ہو ایسا نظرنہیں آتا۔
اس وقت دنیا کے سامنے جو مسائل ہیں ان میں سب سے اہمیت کا مسئلہ ہے ”بڑھتی آبادی۔“ دنیا کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس پر عوامی سطح پر کوئی فکر اور توجہ نہیں ہو رہی ہے۔ سرکاری طور پر اس سلسلہ میں کی جانے والی کوششیں ہر سرکاری پلان کی طرح ہی ہیں یعنی کاغذی عمل درآمد سے آگے کچھ نہیں۔ ان سرکاری اسکیموں کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ بہت ہی مایوس کن ہیں اس طرح سرکار کی یہ اسکیم بھی سفید ہاتھی کی مانند ہوتی جا رہی ہے۔
اعداد و شمار پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس سے ہر سال کرہئ ارض پر چار سو ستر لاکھ نفوس اضافی خوراک کے لئے بڑھ جاتے ہیں اس طرح ہر سکنڈ اضافی خوراک کے لئے ایک سے زائد انسانی وجود کا اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک طرف شرح پیدائش میں یہ اضافہ اور دوسری طرف میڈیکل سائنس کی ترقی اور حفظانِ صحت کے موثر طریقوں کی وجہ سے شرح اموات میں آرہی کمی کی وجہ سے آبادی کے اضافہ کی سالانہ شرح کا فیصد برابر بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اگلی صدی تک یوں ہی چلتا رہا جویقینا چلتارہے گا تو اس کرہئ ارض پر انسانی بھار قریب قریب زمین کے بھار کے برابر ہو جائے گا۔
کیا یہ لمحہئ فکریہ نہیں ہے۔؟تو پھر اس سے اتنی بے اعتنائی کیوں۔؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلہ میں عوام کو اس کے نتائج سے باخبر کر ایا جائے اور عوامی سطح پر تحریک چلائی جائے تاکہ اس بڑھتی آباد ی کے ”ایٹم بم“ کو پھٹنے سے پہلے فیوز کیا جا سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کے لئے کیا کیا جائے۔؟اگر اس مسئلہ پر غور کریں تو سب سے پہلے ہمارے لئے یہ ضروری ہے۔ کہ ہم سرکاری اسکیموں کو بروئے کارلائیں۔ اسے خود اپنائیں اور دوسروں کو بھی آمادہ کریں کہ وہ کسی جبر کے ڈرسے نہیں بلکہ خوشی سے اس کو اپنائیں۔ کیونکہ اگر یہ آبادی بم پھٹا تو پوری دنیا کو متاثر کرے گا۔ کیونکہ قدرتی نظام کے تحت اکثر دنیا کی آبادی وبائی امراض، ارضی اور سماوی آفات یا انسانی جنگوں کے ذریعہ ہی کم ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا قدرتی نظام ہے۔ جسے کوئی روک نہ سکے گا۔ اگر ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قدرت کے نظام پر عمل کریں۔ یعنی مذہب کے اصولوں پر کار بند ہوں۔ تاکہ ہمارے اعمال کے مطابق ہمارے حق میں آسمان پر فیصلہ ہو۔
جہاں تک اسلام کے فرزندانِ توحید کا سوال ہے ان کے لئے قرآن مکمل ہدایت نامہ ہے اسی ہدایت نامہ پر عمل کرکے سارے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں آبادی کے اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے اس ہدایت نامہ میں اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایت سامنے آئی کہ ”تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتی ہیں۔“ بہ الفاظ دیگر شوہر کسان ہیں۔ اب ہم اس پر پوری طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمیں کسان کی ذمہ داری پوری کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔اجمالی طور پر کسان کے فرائض کیا ہیں اگر ہم غور کریں تو جو نتیجہ بر آمد ہوگا وہ کہ۔
۱۔ کسان اپنی کھیتی کے لئے زر خیز زمین کو حاصل کرے۔
۲۔کسان کافرض ہے کہ وہ اپنے کھیت میں بیج ڈالنے سے پہلے کھیت کو پوری طرح تیار کرے۔
۳۔ کھیت کی مکمل تیاری کے بعد اس میں بیج ڈالے اور اس کی حفاظت کرے تاکہ بیج کو نقصان نہ پہونچے۔ یعنی بیج بونے کے بعد پھر کھیت سے ہل کا واسطہ نہ رکھے۔
۴۔ جب تک فصل تیار نہ ہو کھیت کی ہر طرح سے رکھوالی کرے اور جو چیز فصل کو نقصان دینے والی ہے۔ ان سے کھیت کو بچائے۔
۵۔جب فصل تیار ہو جائے تو اس کے کاٹنے کا معقول انتظام کرے اور حفاظت کے ساتھ کھلیان میں لاکر رکھے۔ اور پوری توجہ اناج حاصل کرنے پر رکھے۔
۶۔ اناج کو کیڑے مکوڑوں سے بچاکر بازار لے جائے اور مناسب قیمت حاصل کرے۔
۷۔ اس منزل تک پہونچنے کے بعد پھر سے اپنے کھیت کی طرف توجہ دیں۔اور پھر سے وہی کاروائیاں انجام دیں اور دوسری فصل حاصل کرنے میں لگ جائیں۔
اگر مندرجہ بالا امور کو ہم مسلمان خاوند اپنی کھیتی یعنی بیویوں پر لاگو کریں تو یقینا ہماری اولادوں کی پیدائش کے بیچ کا وقفہ کافی ہوگا۔ جو آبادی پر کنٹرول کا ذریعہ بنے گا۔ جب ہم مندرجہ بالا طریقوں پر عمل کریں گے تو ہماری فصل بھی اچھی ہوگی یعنی اولاد صالح ہوگی۔ اس کی تربیت کا موقع بھی ملے گا۔ اور وہ معاشرے میں اچھے شہری کی حیثیت حاصل کرے گا۔
مگر عام طور پر مسلمانوں میں اس مسئلہ پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ناکارہ فصل اگ رہی ہے اور کیوں نہ ہو جب آپ کھیت کی استعداد سے زیادہ فصل چاہیں گے تو لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ فصل زیادہ تو ہوگی مگر ناکارہ۔ اور تربیت کی کمی اسے بے قیمت بنا دے گی۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم خاص طور پر اس طرف توجہ دیں اور ناکارہ فصل اگانے والے کسان نہ کہلائیں۔ آبادی کے بے تحاشہ اضافے کے مجرم نہ بنیں تاکہ قدرت کے تاز یانے سے بچے رہیں۔
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018
موبائل:9452482159
Email: manzoorparwana7673@gmail.com