چائے روٹی مبارکپور کی
محمدرضا ایلیاؔ مبارکپوری
رابطہ-9369521135
ہندوستان کے مختلف شہروں، علاقوں اور بستیوں میں صبح کے ناشتہ کے طور پر عوام الناس متعددقسم کے پکوان کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ریشمی نگری المعروف اپنے پیارےقصبہ مبارکپور، اعظم گڑھ کے ناشتے کی بات کریں تو ہمارے یہاں اکثر لوگ ناشتے میں ’’چائے روٹی‘‘ سان کر بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں اگر چاہے روٹی کا ناشتہ نہ دستیاب ہو تو دن بھر اہل مبارکپور ماہی بن آب اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے اور کروٹ بدلتے رہتے ہیں اور یہ ہمارے مبارکپور کا سب سے مرغوب ناشتہ ہے بلکہ اگر چائے روٹی کو اہل مبارکپور کا’’ قومی ناشتہ ‘‘قرار دیا جائے تو یہ اس میں مبالغہ آرائی کی بات نہ ہوگی۔
اس ممتاز و منفرد اور لاثانی ناشتے کوتیار کرنےکے لیے سب سے پہلے چائے کو ملسی (پیالی) میں نکال لیتے ہیں پھر روٹی قصاب کی طرح بے رحمی سے اسے مڑوڑ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے اور اسے چائے میں چمچ کے سہارے بڑے ناز و ادا کے ساتھ نئی نویلی دلہن کی طرح غسل دیا جاتا ہے تاکہ روٹی کے ٹکڑے چائے کی مکمل طور پر حلول کر جائیں اور حلاوت کو اپنے اندر جذب کر لیں، جب چائے میں روٹی کے ٹکڑے روئی کی طرح ملائم اور نرم ہوکر گل بکاولی کی طرح کھل جائیں اور معشوق کے رخسار کی طرح نرم و نازک ہوجائے اورایسی حالت میں اس میں اگر ملائی کی حلاوت حلول کر جائے تو ’’نوراعلیٰ نور‘‘ ہوجاتا ہے۔
ملائی کو چائے روٹی اس احتیاط رکھا جاتا ہے جیسے پہلے شب کی دلہن سنگار کرتے وقت غازہ و گلگونہ اپنے نازک رخسار پربڑے احتیاط کے ساتھ رکھتی ہے اور روٹی بالائی کے تہہ خانہ ایسے اٹھکھیلیاں کرتی ہے جیسے پہلے شب کی دلہن شرماتے ہوئے آئینہ میںنازک ادا سے تکتی ہے۔ جب ہم دست ثانی ’’چمچہ‘‘ سے بالائی روٹی اور چائے کو آپس میں معانقہ اوربغل گیری کرتے ہیں تو روٹیاں ساون کے جھولوں کی طرح پینگ مارتی ہیں یا یوں کہا جائے تو مزہ دوبالاہو جائے گا کہ جیسے موسم بہاراں کی شب میں چانداور بادل آپس میں چھپن چھپائی کھیلتے ہیں یا چاند بادل کےشہ نشین سے بار بار اپنی دید کاسنہرا موقع دیتا ہے ۔
اور اگر چائے روٹی لبن خالص والی ہو اور اس میں دیسی گھی کا ادغام کردیا تو من و سلویٰ کا ذائقہ بھی پھیکا پڑجائے۔جناب والاآپ اس چائے روٹی کے ذائقہ کی بات تو نہ کیجیے تو بہتر ہے۔ حیدر آباد کا ’’پایا‘‘،مراد آباد کی بر یانی اور لکھنؤ کی کلچا نہاری اورگل قند ، کشمیر کا قہوہ اور بازوان ، دہلی کا مرغ مسلم ، مئو کی ثریدیعنی’’اینگستی‘‘مبارکپور کی ’’چائے روٹی‘‘ ، برہان پور کی ’’چلیبی‘‘ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
اس تمام جد وجہد اور پیچ و خم کے بعد چائے روٹی حقیقی دہن میںاستقبالیہ طور پر خوش آمدید کرتے ہوئے پرویش کرتی ہے اور لسان انسانی پر اپنا سر تال چھیڑ دیتی ہیں اس سرور کیف حالت نہ پوچھئے جناب اس کی لذت دل و دماغ پر شاہی ذائقہ سے ملذذ اور سرخرو کر دیتی ہیں۔’’چائے روٹی‘‘ کی لذت ویسی ہی ملتی ہے جیسے باد نسیم پھولوں میں مشک و عنبر کی روح پھونک دیتی یا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی معشوق کو اختر شیرانی کی غزل پڑھ کر سنا دیا گیا ہو