بھوپال فرضی انکاؤنٹر:وہی مدعی وہی منصف
عادل فراز لکھنؤ
مدھیہ پردیش میں نہتے نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر میں ماردیا گیا۔پولس نے ایک بار پھر پرانی روایت کو دہرایا اور من گھڑنت کہانی بناکر عوام اور میڈیا کو سنادی گئی۔وہ تو بھلا ہو گاؤں والوں کا کہ وہاں موجود کسی نے اس پورے واقعہ کا ویڈیو بناکر وائرل کردیا۔ورنہ ہمیشہ کی طرح پولس اور سرکار کی کہانیوں پر عوام کو یقین کرنا پڑتا۔اس طرح اس انکاؤنٹر کی حقیقت کبھی عوام کے سامنے نہ آتی۔کسی جمہوری ملک میں پہلی بار ہم نے دیکھا کہ پولس عدالت کی طرح فیصلے صادر کرتی ہے۔جنکا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا انہیں دہشت گرد کہہ کر قتل کردیا گیا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بھی اس بھیڑ چال کا حصہ ہے۔وہ بھی عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی ملزموں کو دہشت گرد لکھ رہاہے۔حکومت تو یہ چاہتی ہے کہ وہ وطن پرستی اور ”ہندوتوو“ کے نام پر جو بھی من مانی کرے اس پر کسی کو سوال پوچھنے کا حق بھی نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اندھے کی آنکھیں بھی جس فرضی انکاؤنٹر کو دیکھ رہی ہوں اس پر اٹھتے سوالوں کو بی جے پی سرکار ملک کے خلاف بتاکر لوگوں کا منہ بندکرنے کی کوشش میں ہے۔کیا جمہوری ریاست میں کسی کو سوال کرنے کا بھی حق نہیں ہے؟ یا پھر اب ہندوستان کی جمہوریت ختم کردی گئی ہے اور آرایس ایس کا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔؟
بھگوا بریگیڈ اور آرایس ایس نواز سرکار کے لئے تشویش ناک مسئلہ یہ تھا کہ عدالتوں سے بے گناہ مسلم نوجوان بری ہورہے تھے۔سنگین الزامات کے تحت گرفتار کئے گئے نوجوانوں کو عدالتوں نے ہر الزم سے باعزت بری کیا۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا کرنے والے لوگ خوفزدہ تھے لہذا اسکا آسان حل یہ نکالا گیاکہ گرفتار نوجوانوں کا فرضی انکاؤنٹر کرکے رہائی سے پہلے قتل کردیاجائے۔واضح رہے کہ ہم نا تو دہشت گردوں کے حامی ہیں اور نہ دہشت گرد تنظیموں کے طرفدار ہیں۔سیمی ہو یا لشکر طیبہ یا طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہم سبکی مذمت کرتے ہیں۔بھوپال جیل سے فرار ہوئے یا فرار کرائے گئے قیدیوں کو بھی ہم اس لئے بے گناہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا مگر فرار ہونے کے طریقے اور انکاؤنٹر کی گھڑی گئی کہانی پر ضرور سوال اٹھتے ہیں۔کیونکہ پولس کے متضاد بیانات سامنے آتے رہے۔شیوراج چوہان اور آئی جی بھوپال کے بیانات میں کوئی تال میل نہیں تھا۔مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ بھوپندر سنگھ تو بغیر ہوم ورک کے عوامی ذرائع ابلاغ پر عجیب و غریب بیان دیتے نظرآئے۔کیا ہماری ایجنسیاں،عدالتوں کے جج صاحبان،ہماری زعفرانی سرکار اور طوطا میڈیا ان متضاد بیانات کو نہیں سن رہے ہوں گے۔کیا انکی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان متضاد بیانات کے بعد انکاؤنٹر پر سوال اٹھائیں اور جانچ کا مطالبہ کریں۔مگر جانچ کا مطالبہ کرنے سے بھی کیا حاصل ہوگا کیونکہ جانچ کمیٹیوں کا کیا حشر ہوتاہے یہ سب جانتے ہیں۔جو سرکار فرضی انکاؤنٹر کراسکتی ہے وہ جانچ میں معاملہ کی حقیقت سامنے آنے دیگی یہ کیسے ممکن ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ پولس کی نگاہ میں خطرناک دہشت گرد تھے تو انہیں خصوصی سیل میں رکھا گیا ہوگا۔ایسے سیل سے بھاگنا اگر اتنا آسان ہے تو عام سیل اور بیرکوں سے بھاگنا تو بچوں کے کھیل جیسا ہوگا۔اگر انہیں عام قیدیوں کی طرح رکھا گیا تھا تو انہیں دہشت گرد کیوں کہا گیا۔اگر وہ دہشت گرد تھے تو عام قیدیوں کے ساتھ کیوں رکھا گیا؟۔پولس پہلے کہتی ہے کہ انکے پاس ہتھیار نہیں تھے۔اچانک انکے تھیلوں سے ہتھیار بھی نکل آتے ہیں۔کوئی کہتاہے کہ انکے پاس دھار دار ہتھیار تھے جو ویڈیو فوٹٰیج میں دکھائی دیتے ہیں مگر بھوپندر سنگھ کہتے ہیں کہ انکے پاس چمچ سے بنے چاقو اور لکڑی کی چابیاں تھیں۔پہلی بار سناہے کہ لکڑی کی چابی سے بھی تالے کھولے جاتے ہیں۔جیل سے فرار ہوتے ہوئے وہ ایک پولس کانسٹبل کا قتل کردیتے ہیں مگر اس کانسٹبل کے پاس اپنی”سروس گن“بھی نہیں ہوتی۔نا وہ شور مچاتاہے اور نہ آس پاس موجود دوسرے پولس والے اس پورے واقعہ میں کہیں نظر آتے ہیں۔سی سی ٹی وی کیمرے بھی سرکار کی طرح کسی کام کے نہیں نکلے۔پولس کے بقول انکے پاس سات کٹے تھے۔یہ سات کٹے انہیں جیل میں کسی نے مہیا کرائے یا جیل سے باہر نکل کر انہیں دیے گئے۔سوال یہ ہے کہ جس نے جیل سے باہر یا اندر انہیں ہتھیار مہیا کرائے کیا وہ جیل کے باہر انکے بھاگنے کے لئے گاڑی مہیا نہیں کراسکتے تھے۔انکاؤنٹر اصلی تھا یا فرضی مگر انکاؤنٹر کے پیچھے کی کہانی ضرور فرضی معلوم ہوتی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے کیسا ماحول تیار کیا گیاہے اور کس طرح بے دریغ بے گناہوں کا قتل عام کیا جارہا ہے مگر مسلمان رہنما اور تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔آخر کب تک ہم اپنے بکھیڑوں میں الجھے رہیں گے۔کبھی حکومت منصوبہ بند طریقے تین طلاق کا مسئلہ اٹھادیتی ہے تو کبھی یکساں سول کوڈ اور لوجہاد کا ڈھنڈوروا پیٹا جاتاہے۔دادری میں اخلاق کا بہیمانہ قتل کردیا جاتاہے تو کبھی گجرا ت کے واقعہ کو مظفرنگر میں دہرانے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔سرکار جھوٹی کہانیاں یقین کے ساتھ سناتی ہے کیونکہ سرکار کے بھکتوں اور زعفرانی ٹولوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ہمار ی اصلیت یہ ہے کہ ہم شیعہ و سنی کے نام پر خوب لڑسکتے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف تبرا کرسکتے ہیں۔گڑے مردے اکھاڑ کر واویلا مچاسکتے ہیں۔اتنے پر بھی جی بھلا نہ ہوا تو پھر دیوبندی اور بریلوی کا جن بوتل سے باہر نکل آتاہے۔یہ تمام مسائل مولویوں کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور مولوی ان مسائل کو کبھی سلجھنے نہیں دینگے کیونکہ انکا مذہبی و سیاسی قد انہی مسائل کا مرہون منت ہے۔ایجنسیاں انہی مسائل کو زندہ رکھنے کے لئے انکی جیبیں بھرتی ہیں اور ہم خالی جیبوں کے باوجود ان مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ یہ مسائل نا مناظرہ سے سلجھ سکتے ہیں اور نہ لڑائی جھگڑے سے حل ہوسکتے ہیں۔مسلمان اپنے مستقبل پر فکر مند ہوں اور سیاسی و سماجی لائحہ ؐ عمل ترتیب دیں۔اگر انہیں اپنے مستقبل کی ذرا بھی فکر ہوگی تو یہ تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔اگر اب بھی ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے تو ایسے فرضی انکاؤنٹر روز ہوتے رہیں گے اور ہمیں کوئی حق نہیں پہونچتا کہ سرکار اور پولس کی بربریت کے خلاف شور مچائیں۔اپنے حقوق کی بازیابی اور نسلوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو متحد ہوکر میدان عمل میں آئیں ورنہ اس سے بھی برے حالات کے لئے تیار رہیں۔