جدید مرثیہ: ہئیت اور فارم کے مسائل
جدید مرثیہ کی ہئیت اور فارم پر مرثیہ کے ناقدین کی جانب سے مسلسل سوالات قائم کئے جاتے رہے ہیں۔ان سوالات کی نوعیت کہیں خالص متعصبانہ رویوں کی نشاندہی کرتی ہے تو کہیں یہ سوالات محض تاریخ کے تسلسل کو نہ سمجھ پانے کی بنیاد پر ہیں یا پھر ان سوالات کے ذریعہ خلط مبحث کی کوشش کی جاتی ہے۔مرثیہ کی ہئیت سے متعلق جتنے بھی سوالات معرض وجود میں آتے رہے ہیں ان سوالات کو قائم کیے جانے کی نفسیات ایک سی ہے۔اگر ہم مرثیہ کے ابتدائی عہد کا بغور جائزہ لیں اور تاریخی تسلسل کے ساتھ مرثیہ کی بتدریج متغیر ہوتی ہوئی ہئیت کے نمونوں کو سامنے رکھتے ہوئے جدید مرثیہ کے تازہ نقوش پر بحث کی جائے تو نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جاسکتاہے۔پہلے تو ہمیں معترضین کے سوالات کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا کہ آخر ان اعتراضات کی نفسیات اور وجوہات کیاہیں؟اگر ہم ان اعتراضات کے مباحث سے محض یہ نتیجہ اخذ کریں کہ جدید مرثیہ میں ہئیت کے جو تجربے وجود میں آئے ہیں انکی بنیاد پر مضامین کی ترسیل میں تنوع کا فقدان اور مرثیہ کی فضا سے مطابقت نہ ہونے کی بنیاد پر ہیں تو ان اعتراضات کوایک الگ تناظر میں پیش کرنا ضروری ہے۔اگر ان اعتراضات کالائحہئ عمل یہ ہے کہ ہئیت کی اس تبدیلی کی بنیاد پر مرثیہ اپنے مقصد اصلی ”رثائیت“ کی حدوں سے خارج ہوگیاہے تو اس پس منظر کی تفہیم ایک الگ نقطہئ نگاہ رکھتی ہے۔بعض منطقی و تاریخی وجوہات کی بنیاد پر یہ بحث غیر ضروری معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ اب نئے مرثیہ کی ہئیت پر وارد ہونے والے اعتراضات ایک مسلسل بحث کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔انکا یہ کہنا کہ ”جدید مرثیہ اپنے مطلوبہ فارم سے دو ر ہوتا جارہاہے“”نئے مرثیہ پر مرثیہ کا اطلاق نہیں ہوتاہے بلکہ وہ مسدس کی شکل ہے”کیا مرثیہ کی ہئیت میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ موضوع کی مناسبت سے ہورہے تغیرات کو قبول کرسکے“”میرضمیر کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر مرثیہ کو مرثیہ نہیں کہا جاسکتا“اور ان اعتراضات کے ساتھ اہم اور قابل غور اعتراض یہ بھی ہے کہ مرثیہ کو مروجہ سدسی ہئیت ہی میں لکھا جائے کیونکہ یہ فارم مرثیہ کے لئے موزوں تر ہے“ ظاہر ہے ان اعتراضات کے جوابات مرثیہ نگاروں نے مرثیہ میں رائج تجربوں سے ہٹ کر نئے تجربات کو داخل کرکے بھی دیے ہیں لیکن اسکے باوجود متعصب مزاج ناقدین یہ سوال قائم کرتے رہتے ہیں۔پروفیسر احتشام حسین ایک مضمون”ہئیت اور مواد“ میں اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں ”ہئیت کا تعلق مواد کے تغیر سے ہے اسلئے دونوں پر ایک ساتھ نظر ڈالی جاسکتی ہے۔صرف ہئیت میں تغیر بالکل بے معنی سی بات ہے اور ضرورت کے وقت ہئیت کا تبدیل نہ ہونا یا اسے تبدیل نہ ہونے دینا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا“
(مضمون”ہئیت اور مواد“ مشمولہ تنقیدی جائزے)
پروفیسر احتشام حسین کے بقول مواد کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہی ہئیت و فارم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔لکھنے والے کے ذہن میں جس وقت موضوع کا خاکہ تیار ہوتاہے اسی کے ساتھ اظہار کے پیرایے کا کینیڈا بھی تیار ہونے لگتاہے۔اسکے باوجود بھی معترضین کے اعتراضات پر اگر غور کریں تو پہلے اعتراض کی نوعیت کومرثیہ کی ہئیت میں تاریخی تسلسل کے ساتھ ہوتی ہوئی تبدیلیوں سے صرف نظر اور چشم پوشی کی بنیا پر رد کیا جاسکتاہے۔مرثیہ جس وقت ہاشمی،نصرتی،قلی قطب شاہ،فضلی اور شاہ نجم الدین آبرو کی آغوش تخلیق میں اپنے ارتقاء مسلسل کے خواب دیکھ رہا تھا اس وقت نہ تو مرثیہ کی کوئی ہئیت متعین تھی اور نہ ادائیگی مضامین کے لئے کسی ایک مخصوص ہئیت کی پابندی کی جارہی تھی۔مرثیہ اپنے آغازسے مختلف فارمز اور الگ الگ ہئیتوں میں لکھا جاتا رہاہے۔زیادہ تر مرثیے ابتدا میں غزل اور مثنوی کی ہئیتی ساخت سے متاثر رہے بہت کم ایسے مراثی دستیاب ہوتے ہیں جو مخمس،مربع یا مثلث بحروں میں لکھے گئے ہوں۔نصرتی کا معروف مرثیہ ”حسین کا غم کرو عزیزاں“ بھی غزل کی ہئیت میں لکھا گیاہے۔فضلی کی کربل کتھا کے زیادہ تر مرثیے مثنوی اور غزل کے پیرائے میں لکھے گئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آیامیر ضمیر کے و ضع کردہ اصولوں کے پابند ہوکر قدیم مرثیہ کو ہئیت اور فارم پرستی کی بنیاد پر راندہ ادب قرار دیدیا جائے؟حقیقت یہ ہے کہ ان قدیم مرثیوں کی استوار کی گئی بنیادوں پر ہی آگے چل کر جدید مرثیے کے ضابطوں اور اصولوں کی عمارت رکھی گئی۔کوئی بھی تجربہ کبھی بے بنیاد نہیں ہوتا اس تجربہ کی اپنی انفرادی افادیت ہوتی ہے اگر تجربہ میں ہمہ گیریت اور نیاپن ہے تو وہ اجتماعی فکروں پر بھی اثر انداز ہوتاہے۔تاریخی شواہدات کے ملحوظ نظر مسدس کی ہئیت میں سب سے پہلا تجربہ مرزا محمد رفیع سودا نے کیا تھا بقول اثر لکھنوی ”جہاں تک تحقیق ہو چکی ہے سودا ہی وہ پہلا شاعر تھا جس نے صرف مسدس میں مرثیہ کہا“
(انیس کی مرثیہ نگاری ص۴)
اس شہادت کے بعد اور معترضین کے الزمات کے پیش نظر کیا سودا سے قبل لکھے جانے والے مرثیہ کو جو مسدس کی ہئیت میں نہیں ہے مرثیہ کی صنف سے خارج کردیا جائیگا؟جبکہ بذات خود سودا نے بھی ہر ہئیت میں مرثیے کہے ہیں۔بعض مرثیہ کے وہ ناقدین جو میر ضمیر کے مروجہ اصولوں کو ہی مرثیہ کے لئے سند توثیق مانتے ہیں تو پھر وہ میر ضمیر سے قبل کہے گئے مرثیہ کو کیا نام دیں گے؟انیس کے بعد جو مرثیہ لکھا گیا وہ بھی ان اصولوں پر کھرا نہیں اترتا۔آل رضا،مظہری،نسیم امروہوی،وحید اختر،نجم آفندی سے ہلال نقوی اورامید فاضلی تک تمام مرثیہ نگاروں کے یہاں ایسے مرثیے موجود ہیں جن پر پوری طرح مرثیہ کا اطلاق نہیں ہوتاہے۔
سیدہ جعفر کی تحقیق کے مطابق رزمیہ،بین،اور چہرہ و سراپا جیسے ضوابط کے ساتھ جمیل مظہری نے سب سے پہلے مرثیہ کی ہئیت میں تبدیلی کا تجربہ کیا مگر اس وقت اس تجربہ کی طرف کسی کی تنقیدی نگاہ نہیں گئی۔مظہری نے مرثیے میں تیسرے مصرعے کو غیر مقید رہنے دیا۔اردو نظم میں ایسے تجربے ہورہے تھے لیکن مرثیہ کے لئے ایک خوشگوار تجربہ تھا۔بطور مثال ایک مرثیہ کی تمہید کے دو بند ملاحظے کے قابل ہیں۔
قرباں ہے گرد راہ سفر کس سوار پر ہے اک دھمک زمان و مکاں کے حصار پر
باگیں کھنچی ہیں توسن بدگام وقت کی پپڑی جمی ہے ابلق لیل و نہار پر
سائے کو بڑھنے دھوپ کو ڈھلنے نہیں دیا
راہ غلط پہ وقت کو چلنے نہیں دیا
یہ کسکی تشنگی سے ہے سیراب کائنات یہ کس کی ٹھوکروں سے بہے دجلہ و فرأت
ہے کس کی مٹھیوں میں عناں مہر و ماہ کی ہے کس کی انگلیوں کے تلے نبض شش جہات
یہ کس کے گرد رحمت حق گھومتی رہی
تاریخ کس کے نقش قدم چومتی رہی
اس ہئیتی تبدیلی پر اس وقت کسی نے توجہ نہیں کی کیونکہ اس تبدیلی پر نا انکی حمایت میں کوئی سامنے آیا اور نہ کسی کی احتجاجی آواز بلند ہوئی۔شاید ناقدین کو جمیل مظہری کے ادبی قد نے مخالفت سے باز رکھاہو۔مظہری کے اس تجربے کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر ہلال نقوی لکھتے ہیں ”جمیل مظہری نے تیسرے مصرعے کو مقید کرکے مسدس کو ایک نئی سمت دی ہے“
(بیسویں صدی اور جدید مرثیہ)
پروفیسر عقیل رضوی مظہری کے اس تجدد اور ہلال نقوی کے اس خیال سے اختلاف کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ تجربہ خیال کو رفتہ رفتہ عروج کی طرف لیجانے میں رکاوٹ پیدا کرتاہے۔انہوں نے اس تجربے کو جدت برائی جدت کا نام دیا تھا۔پروفیسر عقیل رضوی کے بقول ”تجربے کرنے ہی ہیں تو معریٰ مرثیوں کی کوشش کی جاسکتی ہے۔آزاد نظم کی صورت اختیار کی جائے یا بالکل فری ورس اور نثری نظموں میں یہ تجربے اختیار کئے جائیں شاید کچھ اچھے مرثیے نکل آئیں۔مسدس کے فارم کو بگاڑنا مناسب نہیں“۔پروفیسر عقیل رضوی مخالفت برائی مخالفت کی فکر میں یہ بھول بیٹھے کہ فری ورس اور آزاد نظم کے پیرائے میں مرثیہ اگر لکھا جاتاہے تو اسکی نوعیت کیا ہوگی۔در اصل پروفیسر محمد عقیل جوش ملیح آبادی کے نظریے کے دفاع میں کھڑے نظر آتے ہیں۔جوش مسدس کے فارم میں تبدیلی کے سخت خلاف تھے۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا ”فارم میں تبدیلی لانا کوئی ضروری نہیں …….مسدس مرثیے کے لئے بہترین شکل ہے“
(جدید مرثیہ کے تین معمارص ۶۱ بحوالہ ادبی مقالے از کاظم علی خاں)
مسدس کو مرثیہ کے لئے موزوں تر ہئیت تسلیم کرنا گویا مرثیہ میں نئے ہئیتی تجربات کے دروازوں کو بند کردینا ہے۔ایک طرز اظہار پر مصر ہونا فن کے ارتقاء مسلسل کو نقصان پہونچانے کے مترادف ہے۔مرثیہ نگار مضامین کی ترسیل و ابلاغ کے لئے مواد کی اہمیت کی مناسبت سے ایسی ہئیت کی تلاش کرسکتا ہے جو ”رثائیت“ کو متاثر نہ کرتی ہو ساتھ ہی مرثیہ کی داخلی ساخت بھی مجروح نہ ہو۔پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں ”چونکہ تحت اللفظ خوانی میں بھی مسدس میں مدد ملتی ہے اس لئے ہر وہ مرثیہ جو اس طرح پڑھنے کے لئے لکھا جاتاہے مسدس ہی کی شکل ہوتاہے۔اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ مرثیہ کی معین ہئیت ہے“
(”معراج فکر“نجم آفندی مقدمہ پروفیسر احتشام حسین مطبوعہ سرفراز پریس لکھنؤ جنوری ۰۶۹۱ص۷۱)
اس اقتباس کے بعد مسدس کی ہئیت پر جوش کے اصرار کی منطق بھی سامنے آجاتی ہے۔جوش بہترین تحت اللفظ خواں تھے اور جن موضوعات کو وہ مرثیہ میں شامل کرنا چاہتے تھے اسکے لئے مسدس سے بہتر دوسری کوئی ہئیت نہیں تھی۔مرثیہ نگار سدسی ہئیت کے اس لئے بھی پابند رہے کہ چھ مصرعوں میں بات کو آسانی سے بیان کیا جاسکتا ہے۔موضوع کی اہمیت کے ساتھ ایجاز و اطناب کی بہتر گنجائش ہوتی ہے۔غزل،ثلاثی،یا رباعی کے پیرائے میں خیال کی ترسیل مشکل معلوم ہوتی ہے۔
جدید مرثیہ نگاروں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر ہئیت مرثیہ میں کئی اہم تبدیلیاں کیں مگر ان تمام تر تبدیلیوں کے با وجود مرثیہ میں کسی نئے تجرباتی عہد کا آغاز نہ ہوسکا۔مرثیہ ان تجرباتی تغیرات کے بعد مسلسل مورد تنقید قرار دیا جاتا رہا۔اس لئے کہ اگر یہ ہئیتی تبدیلی فقط موضوعی وسعت کے لئے تھی تو اس وسعت کی گنجائش مرثیہ کی قدیم ہئیت میں بھی ممکن تھی لہذا اس تجربہ کی بنیاد پر کسی نئی تبدیلی کی پذیرائی اس سطح پر نہیں ہوسکتی تھی۔اور اگر یہ تبدیلی اس لئے کی جارہی تھی کہ مرثیہ اب قدیم سدسی ہئیت سے تنگ آچکا تھا اور موضوعات کو برتنے کی گنجائش بھی سدسی ہئیت میں کم تھی تو پھر جتنے تجربے عمل میں آئے وہ مسدس کے دائرے سے باہر نہ نکل سکے۔لہذا ان تجربات کو ہم زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔یہا ں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ہئیتی تبدیلی سے زیادہ مرثیہ میں موضوعاتی تبدیلی وجود میں آئی اور اس موضوعاتی تبدیلی کو ہئیتی تبدیلی کا نام دیا گیا۔مرثیہ مسدس کی ہئیت میں نیا نہیں لکھا جارہا تھا مگر جب مروجہ اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر رثائیت سے صرف نظر کے بعد مرثیہ تحریر کیا جانے لگا تو ہئیت میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی عمل میں نہ آئی صرف موضوعاتی تبدیلی کی بنیاد پر اس مروجہ تجربہ کو مسدس کا نام دیدیا گیا۔جبکہ یہ تجربہ صرف موضوعاتی تھا نا کہ ہئیتی۔افسوس کہ ہمارے مرثیہ نگاروں نے ہئیتی تبدیلیوں کے جتنے دعوی کئے ان میں حقانیت کم اور ادبی نعرہ بازی زیادہ تھی۔اتنے تغیرات کے بعد بھی آخر کیوں مرثیہ مسدس کے پیرائے ہی میں سمٹ کر رہ گیا؟شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ”مسدس اور مرثیہ کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میر انیس کے بہت کم مقلد قابل ذکر شاعر تھے۔سب تقریبا کاملا نقال تھے۔ورنہ مسدس کی صنف میں اتنی دلکشی اور مرثیہ کے ساتھ اسکا تعلق اتنا زبردست ہے کہ میر انیس کے بہت بعد بلکہ ہمارے عہد تک مرثیہ لکھنے کی تمام سنجیدہ کوششیں مسدس سے دامن کش نہ ہوسکیں“
(اثبات و نفی ص ۰۹)
فاروقی کا یہ بیان قابل غور ہے۔یہ حقیقت ہے کہ انیس کے بعد کے مرثیہ نگار انکی تقلید کی کوششوں میں مرثیہ کو وہ بلندی نہیں دے سکے جو میر و غالب کے بعد غزل کے نصیب میں آئی۔انیس کے بعد صرف ایک ہی قابل ذکر مرثیہ نگار جوش کی شکل میں سامنے آیا جس نے اس جمود کو توڑنے کی کوشش کی مگر اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرثیہ کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا۔ جوش نے مرثیہ کو نئی سمت سے ضرور متعارف کرایا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ جوش کے بعد کی نسل مسلسل تجربے کرتی رہی۔مشکل یہ پیش آئی کہ یہ تمام تجربات جوش کے تجربوں کو وسعت نہ دے سکے۔جس طرح انیس کی تقلید نے مرثیہ کو نقصان پہونچایا اسی طرح جوش کی اندھی تقلید نے مرثیہ کے ارتقاء کی راہیں مسدود کیں۔میر انیس کی کورانہ تأسی کی توجیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر حسین لکھتے ہیں ”خیال کی جتنی ممکن حدیں نظر آتی تھیں سب بھر چکی تھیں۔ہر قسم کے تصرفات ختم ہوچکے تھے اور پھر انکا میلان،زمانہ کی نغمہ ریزیوں کی گونج مذہبی اور ادبی دونوں فضاؤں پر اب تک اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ پچھلے انداز سے انحراف کرکے کوئی نئی لے چھیڑنا اور کامیاب ہوجانا تصور ہی میں نہ آسکتا تھا۔اس لئے انیس و دیبر کے بعد کے شعرء نے اسی بسی ہوئی آواز میں آواز ملانا شروع کردیا۔“
(مرثیہ بعد انیس،مشمولہ ”نگار“ جولائی ۳۴۹۱)
ڈاکٹر صفدر حسین کے اس قول سے اختلاف و اتفاق کیا جاسکتاہے۔انیس کے فورا بعد موضوعاتی اور ہئیتی سطح پر کوئی بھی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا جاسکا۔مگر عرصہ دراز کے بعد موضوع میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہئیت میں بھی تغیر کی کوششیں کی جانے لگیں۔ان تغیرات کی نوعیت کیا تھی اور یہ تجربے کس حدتک کامیاب ہوئے یہ الگ بحث ہے لیکن ہر رجحان اور ہر تحریک کے زیر اثر مرثیہ کی فضا بھی بدلتی رہی۔مرثیہ کے لئے مقبول ہئیت مسدس ہی رہی لیکن مسدس کے پہلے چار مصرعوں میں تبدیلیاں کیں گیں،ٹیپ کے بندبھی مروجہ ہئیت سے الگ لکھے جاتے رہے یہ تجربے انیس سے پہلے اور جوش تک وجود میں نہیں آئے تھے۔مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا حالی کی تحریک کا اثر ہر صنف نظم پر اثرانداز ہوا لیکن مرثیہ اسی رفتار سے چلتا رہا جو اسکا روایتی چلن تھا۔ترقی پسند تحریک کے آغاز میں مرثیہ کی ہئیت میں تبدیلی کی گنجائش نکالی جاسکتی تھی لیکن جوش مسدس کے علاوہ کسی دوسری ہئیت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔جوش کے بعد مظہری اور دوسرے شعراء نے اس ہئیت پرستی پر سوال کھڑے کئے اور خاطر خواہ تبدیلیاں بھی کیں۔مگر جوش مرثیہ کی داخلی ہئیت اور موضوعات میں تبدیلی کے تو قایل تھے لیکن خارجی ہئیت میں تبدیلی انکے مزاج پر ناگوار گذرتی تھی۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا ”فارم میں تبدیلی لانا کوئی ضروری نہیں،مسدس میں چھ مصرعے ہوتے ہیں جنمیں موسیقیت بھی ہوتی ہے اور گنجائش بھی،اثر اور جوش دونوں باتیں اس سے پیدا ہوتی ہیں اسلئے مسدس مرثیے کے لئے بہترین شکل ہے“
(جدید مرثیہ کے تین معمار ص ۶۱بحوالہ ادبی مقالے،کاظم علی خان)
جوش نے ”گنجائش“ کے لفظ کا انتخاب کرکے کئی اہم باتوں کی طرف اشارہ کردیا ہے۔جوش مرثیہ میں جن سیاسی موضوعات کو برت رہے تھے اور جس قسم کی لفاظی کو فروغ دیا جارہا تھا اسکے لئے مسدس کی ہئیت نہایت موزوں تھی۔جوش کا مرثیہ مرثیہ کم اپنے وقت کے سیاسی المیات کا اخبار زیادہ ہے لہذا جوش اس ہئیت سے انحراف نہیں کرسکتے تھے۔
شعراء نے شخصی مرثیہ کی ہئیت و فارم میں ہر ممکن تغیر و تبدل کی کوششیں کیں،تقریبا ہر ہئیت میں شخصی مرثیہ کے نقوش موجود ہیں،وجہ یہ رہی کہ شخصی مرثیہ ہر اس شاعر نے لکھاہے جو مرثیہ کا باضابطہ شاعر نہیں تھا لہذا شخصی مرثیہ لکھتے وقت انکے پیش نظر وہ عام مستعمل ہئیت نہیں رہی بلکہ انہوں نے غزل،فری ورس نظم،آزاد نظم،نثری نظم غرضکہ ہر ہئیت کا استعمال کیا۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اگر غزل یا ثلاثی کی ہئیت میں رثائی شاعری کی جائے تو اسے سلام یا قطعہ کہکر نظر انداز کردیا جاتاہے لیکن یہی غزل کی ہئیت جب شخصی مرثیوں کے لئے برتی جاتی ہے تو بلاتامل قبول کرلیا جاتاہے۔اگر اس ہئیت پرستی اور مروجہ اصولوں کی پابندیوں سے باہر نکل کر ہم شعری اصناف کا مطالعہ کریں تو بیشمار ایسی نظمیں مل جاتی ہیں جن میں مرثیہ کے تمام عناصر موجود ہیں مگر ہم نہ جانے کیوں انہیں مرثیہ تسلیم کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔خصوصیت کے ساتھ آزاد نظمو ں کی موضوعاتی ساخت میں مرثیہ کے تمام بنیادی عناصر مل جاتے ہیں۔ایسی نظموں کو ادب میں مزاحتمی و احتجاجی نظموں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے جہاں علامت سازی اپنے عروج پر ہوتی ہے مگر اس علامت سازی کے پس منظر کو محسوس نہیں کیا جاتا جو مرثیوں کے ماحول کا ایجاد کردہ پس منظر ہے۔یہ رثائیت کہیں براہ راست کربلا اور اسکے تعلیقات کی صورت میں سامنے آتی ہے اور کہیں بلا واسطہ علامات و استعارات کے ایک مکمل نظام کی شکل میں۔
معاصر مرثیہ نگار موضوعات میں تنوع کے قائل تو ہیں لیکن ہئیت میں کسی بھی طرح کی تبدیلی سے پرہیز کرتے ہیں۔اگر کہیں خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی بھی ہے تو اسے مسدس کا غیر منطقی الزام عائد کرکے مطعون کیاجاتاہے جسکے غلط اثرات مرتب ہورہے ہیں اس طرح جدید مرثیہ نگاروں میں ہئیت کی تبدیلی کے نام پر ایک طویل خاموشی چھائی ہوئی ہے اور کسی حد تک یہ خاموشی اب جمود کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔موجودہ عہد میں لکھا جانے والا نیا مرثیہ روایتی انداز کا ہے جسمیں موضوع کے نام پر بھی کچھ خاص تبدیلی نہیں کی گئی چہ جائیکہ ہئیتی تجربوں کو اہمیت دی جاتی،ہندوستان میں جدید مرثیہ کا مستقبل اندھیرے میں ہے جو مرثیہ لکھا جارہا ہے اسمیں لفظوں کی صناعی تو عروج پر ہے لیکن موضوع اور ہئیت پر
کوئی خاص توجہ نہیں کی جاتی۔ہر مرثیہ نگار انیس یا جوش کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔بعض وہ مرثیہ نگار جنکی طیبعت میں انجماد کے دھبے موجود ہیں وہ صرف بندھے ٹکے موضوعات کو برتنا ہی ہنر تصور کرتے ہیں اور ہر طرح کا تجدد انکے منجمد مزاج پر گراں گذرتاہے۔مختصریہ کہ فی العصر نا تو مرثیہ موضوعاتی سطح پر ارتقاء پذیر ہے اور نا ہئیتی تجدد کے مرحلے سر کررہاہے اگر کچھ ہے تو وہ دو ر تک پھیلا ہوا جمود ہے جسے توڑنے کی ضرورت ہے۔اگر سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کیاجائے تو مرثیہ کے موضوعات میں وسعت کے امکانات روشن نظر آتے ہیں اور اسکی ہئیت میں تجربات کی بہت سی راہیں استوار ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔