شہاب ظفر اعظمی

جدید امریکی انگریز نقاد اور شاعر ایڈگر ایلن پو،نے ایک بڑے فنکار کی جو شرطیں وضع کی ہیں ان میں ایک شرط  موضوعاتی تنوع ہے۔پو  سے بہت پہلے یہی بات ابن خلدون،قدامہ بن جعفر نے شعریات نظم و نثر کے سلسلے میں کہی تھی اور ”کثرت معنی“ کی اصطلاح رائج کی تھی۔پو کے یہاں یہ اصطلاح تھوڑے سے ردو بدل کے بعد موضوعاتی تنوع کی صورت میں نمایاں ہوئی۔ابرار مجیب کا افسانوی مجموعہ ”رات کا منظرنامہ“ پڑھتے ہوئے  جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ ان افسانوں کا موضوعاتی تنوع ہے۔یہ تنوع اسلوبیاتی تنوع سے ہم آہنگ ہو کر نہ صرف رنگا رنگی کا کیف پیدا کرتا ہے بلکہ یہ احساس دلاتا ہے کہ ابرارمجیب کا تخلیقی عمل اس سیمابی کیفیت کا مظہر ہے جسے کسی پڑاؤ،موڑ یا ایک منزل پر قیام حاصل نہیں۔چنانچہ مجموعے کے سبھی افسانے اپنی الگ کائنات رکھتے ہیں۔کسی افسانے میں انسانوں کی بے حسی، اخلاقی دیوالیہ پن اور انسان کی سطحیت کا ذکر ہے تو کسی میں تشدد،منافرت اور فرقہ وارانہ فسادات کا عکس جھلکتاہے۔کسی میں رشتے ناطوں کی بے وقعتی،عہد حاضر کی بے چہرگی اور نجات کی تلاش ہے تو کسی میں زندگی عجیب،پر اسرار اور کچھ حد تک مضحکہ خیز بھی دکھائی دیتی ہے۔گویا ابرار مجیب عصری پیچیدگیوں سے آگاہ ہیں اور آج کے ثقافتی،سماجی اور سیاسی احوال پر ان کی نظر گہری ہے۔معاشرے میں جو عدم توازن ہے اور جس طرح ہماری زندگی ناہمواریوں کا شکارہے وہ سب ان کی نگاہ میں ہیں۔موضوعات کا انتخاب، افسانہ نگار کا ٹریٹمنٹ،تکنیک کا تنوع،زبان پہ دسترس اور دلچسپی کے عناصر پہ گرفت ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں حیرت میں مبتلا کر تی ہیں۔افسانے میں تخلیقیت،ایمائیت اور شعریت کے متلاشی قاری کو پچھواڑے کا نالا،بارش، بازیافت،نیل کنٹھ کی واپسی اور نروان سے پرے جیسے افسانے بہت اندر تک بھگوجائیں گے،کیونکہ ان افسانوں میں موجود حیات وکائنات کے فلسفے،انسانی نفسیات کے گمشدہ گوشے اور معنی کے تہ بہ تہ چھلکے ہمیں تحیر،تجسس،لطف و انبساط،کیف وسرور اور نظریے کی لامتناہی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ ان افسانوں کوآپ روایتی بیانیہ کہانیوں کی طرح نہیں پڑھ سکتے،کیوں کہ نظر جہاں ادھر ادھر ہوئی معانی اور نظریے کا ایک بڑا پتھر حباب کی طرح غائب ہو جائے گا۔یہ افسانے فرد اور معاشرے کے درمیان ایک بامعنی اور گہرے رشتے کا استعارہ ہیں۔

”رات کا منظر نامہ“ میں ابرار مجیب کے ۵۱ افسانے شامل ہیں۔ابرار مجیب کے نظریات کی وسعت،مشاہدہ کی گہرائی،تجربوں کی ہم آہنگی،اسلوب کا انفراد اور کہانیوں کی رنگارنگی دیکھنی ہو تو اِن افسانوں سے ایک بار ضرور گزریے۔”پچھواڑے کا نالا“رشتوں کی بے وقعتی،قدروں کا زوال اورمتوسط طبقے کے جذبات کی عکاسی کرتاہے تو ”افواہ“ ملک کی سیاسی صورت حال اور ایک خاص طبقے کے خوف وہراس کی طرف اشارہ کرتاہے۔حیرت انگیز طور پر طنزیہ اسلوب میں اس کا دائرہ آہستہ آہستہ بین الاقوامی منظرنامے تک پہنچ گیاہے۔”پُشپ گرام کا اتہاس“ بھارت کا اتہاس ہے جہاں طبقاتی کشمکش اور منووادی نظام کی جڑیں زمین کو کھوکھلا کر رہی ہیں تو ”نروان سے پرے“عہد حاضر کی بے چہرگی اور سکون کی تلاش کا استعارہ ہے۔یہاں آج بھی گوتم نجات کی تلاش میں سرگرداں ہے۔”رات کا منظرنامہ۔۱“ ہندستان میں مسلمانوں کی بدلتی ہوئی تاریخ کا گواہ ہے۔اقلیتی طبقہ جس خوف و دہشت میں جی رہاہے اس کا بھرپور بیان اس افسانے کی روح ہے۔”ابال“  پابندیوں میں جکڑی ہوئی، اصول وقواعد سے بندھی ہوئی ایک روٹین زدہ زندگی کے کرب کو پیش کرتاہے تو ”موت“ کرپشن کی بھیانک صورت حال سے روشناس کراتاہے جس نے زندگی کو لاش میں تبدیل کر دیاہے۔”جنگ بند“ خلیجی جنگ سے معاشرے میں پیدا ہونے والے ہلچل کی طرف اشارہ ہے تو ”بازیافت“ اِس بصیرت کا اظہار کہ معاشرے کی بے اطمینانی اور بے سکونی کا علاج مذہب میں ہے،ع  لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردش ایا م تو۔”ڈارون بندر اور ارتقا“ انسان کے ترقیِ معکوس کا اشاریہ ہے تو ”اسٹوری“ اسی ترقی سے حاصل شدہ کارپوریٹ سیکٹر کی ایک گھناؤنی تصویر۔میڈیا کا کھیل اور بے حس صارفی زندگی کی یہ المناک تصویر ہمیں زندگی کی ایک نئی جہت سے آشنا کراتی ہے۔”رات کا منظرنامہ۔۲“ فرقہ وارانہ فسادات اور عورت کی بے وقعتی کاوہ فسانہ ہے جو منٹو کے ’کھول دو‘ سے آگے کا منظر دکھاتاہے۔اِن افسانوں کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہے اور تنوع کی وجہ سے ہی بعض سیدھے سادے ہیں،بعض داستانو ں کے رنگ کے حامل ہیں اور بعض حیران کن حد تک ناقابل فہم بھی۔مگر یہ تنوع ہی اِن افسانوں کا حسن ہے۔یہ افسانے اضطراب کے ساتھ ساتھ احساس کے افسانے بھی ہیں۔یہ افسانے قوس قزح کے ایسے دائرے ہیں جن کی کجی اور رمزیت میں ہی فنکاری پوشیدہ ہے۔ یہ اسرارورموز کی وہ گتھیاں ہیں جن کی بھول بھلیوں میں قاری نئی نئی کائناتوں کی سیر کرتاہے۔

”رات کا منظر نامہ“  پڑھتے ہوئے بادی النظر میں یہ احساس ہوتاہے کہ یہ افسانے علامتی پیرائے میں لکھے گئے ہیں،مگر افسانوں کی تہ میں ذرا اترا جائے تو پتہ چلتاہے کہ یہاں حقیقت نگاری بھی ہے اور داستانوی فضا بھی۔واقعات کے دھنک رنگ ہیں اور علامتوں کی فسوں سازی بھی۔افسانہ نگار نے اپنی بات کہنے کے لیے وہ پراسرار رویہ اختیار کیاہے جو افسانے کی تخلیقی فضا بندی اور واقعہ نگار ی پر اس کی مہارت کا احساس دلاتاہے۔یعنی کہیں وہ طرز بیان ہے کہ حقیقت اور فکشن آپس میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں تو کہیں وہ رمزیت اور اشاریت کہ افسانے قاری کا امتحان لیتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ بڑے وثوق سے کہا جا سکتاہے کہ ابرارمجیب کے یہاں وہ ابہام و اہمال نہیں ہے جو قاری کے لیے دیواروں سے سر ٹکرادینے والی کیفیت پیدا کردے۔ان کی علامتوں میں معنی آفرینی ہے۔مفہوم کی بہت سی جہتیں ان کی تحریروں میں آبادہیں۔ان کا افسانہ نیا افسانہ ہے۔آج کا افسانہ، جو قاری کولفظ لفظ تخلیقی لہر سے روشناس کراتاہے۔