سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے شام سے روس کی مسلح افواج کے جزوی انخلاء کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس سے شامی صدر بشارالاسد بحران کے حل کے لیے رعایتیں دینے پر مجبور ہوں گے۔
سعودی وزیر خارجہ نے شام سے روس کے لڑاکا طیاروں اور فوجوں کے انخلاء پر بدھ کو اپنے پہلے ردعمل میں کہا ہے کہ”ہمیں امید ہے،اس سے جنیوا اول اعلامیے کے تحت سیاسی عمل کو تیز کرنے میں مدد ملے گی اور صدر بشارالاسد سیاسی انتقال اقتدار کے لیے درکار ضروری رعایتیں دیں گے”۔
روسی صدر ولادی میر پوتین کی جانب سے سوموار کو شام سے فورسز کے جزوی انخلاء کے اعلان کے ردعمل میں عادل الجبیر کا یہ بیان سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کیا گیا ہے۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے حوالے سے سعودی عرب کی توانائی پالیسی اور روس کی خارجہ پالیسی کی ”عظیم سودے بازی” کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ”جہاں تک میں جانتا ہوں،ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے”۔
سعودی عرب ،روس اور تیل پیدا کرنے والے بعض دوسرے ممالک نے حال ہی میں تیل کی پیداوار کو موجودہ سطح پر ہی منجمد رکھنے سے اتفاق کیا ہے تا کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے رجحان پر قابو پایا جاسکے۔عالمی سطح پر 2014ء سے تیل کی قیمتیں گررہی ہیں جس کی وجہ سے تیل برآمد کرنے والے ممالک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
روس اور اس کا اتحادی ایران شامی صدر بشارالاسد کے سب سے بڑے حامی اور مؤید ہیں اور وہ ان کی اقتدار سے رخصتی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔بشارالاسد کا اقتدار بچانے کے لیے ہی روس نے شام میں ستمبر 2015ء میں فوجی مداخلت کی تھی اور اس کے لڑاکا طیارے شامی باغیوں پر بمباری کرتے رہے ہیں جبکہ ایران کے فوجی شامی فوج کے شانہ بشانہ مشیروں کے روپ میں باغیوں کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑائی میں شریک ہیں۔
سعودی عرب، امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک اورترکی شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے جنیوا اول معاہدے کے تحت بشارالاسد کی اقتدار سے رخصتی چاہتے ہیں۔یادرہے کہ 30 جون 2012ء کو اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پائے جنیوا اوّل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عبوری حکومت میں صدر بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن شامی حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ صدر کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوگی۔