خلیجی ریاست بحرین نے ایران کی فروغ پذیر میزائل صلاحیت اور اس کے خطرات کی روک تھام کے لے خلیجی ممالک کی سطح پر مشترکہ میزائل پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بحرین کی فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل حمد بن عبداللہ آل خلیفہ نے کہا ہے کہ ایک مشترکہ میزائل ڈیفنس شیلڈ خلیجی ممالک کی اہم ترین دفاعی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک مل کر میزائل پروگرام پر کام کر سکتے ہیں مجھے توقع ہے کہ مشترکہ میزائل ڈیفنس سسٹم کے لیے جلد ہی مساعی کا آغاز کر دیا جائے گا اور اس راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر دی جائیں گی۔
ذراےُ کے مطابق امریکی اور خلیجی ممالک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خلیجی ممالک مشترکہ فوجی صلاحیتوں کے حصول اور دفاعی ذمہ داریوں کے لیے ایک دوسرے سے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں۔
خلیجی ملکوں کو اس لیے بھی خوف لاحق ہے کیونکہ ایران پرعاید اقتصادی پابندیوں کے اٹھنے سے پرانے حریف تہران کی معیشت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا میزائل پروگرام بھی زیادہ موثر ہو جائے گا۔
خلیج تعاون کونسل کے زیراہتمام ایک دفاعی امور سے متعلق منعقدہ ایک اجلاس سے خطاب میں بحرینی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ مشترکہ میزائل سسٹم خلیجی ممالک کی دفاعی ضرورت ہے اور ہم جلد ہی اس ضرورت کی تکمیل کے لیے کام کریں گے۔ بعد ازاں منامہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے میجر جنرل حمد بن عبداللہ آل خلیفہ نے کہا کہ ’’ہم نے کام کا آغاز کر دیا ہے اور ہم پرامید ہیں۔ جلد ہی ہم اس کے مثبت نتائج بھی دیکھیں گے۔
خیال رہے کہ خلیجی ممالک کی جانب سے میزائل ڈیفنس سسٹم کی ضرورت ایک ایسے وقت میں محسوس کی گئی ہے جب دوسری جانب ایران جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت کے حامل بیلسٹک میزائلوں کے مسلسل تجربات کیے جا رہا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی رو سے ایران کا جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت کے حامل میزائل تیار کرنا خلاف قانون ہے۔
حال ہی میں ایران کی جانب سے ممنوعہ بیلسٹک میزائل کےتجربے کے بعد امریکی صدر نے عالمی معاہدے کے خلاف ورزی کرنے پر ایران کی11 فرموں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو مالی سپورٹ کرنے والی اہم شخصیات پر پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پچھلے سال مئامہ میں خلیج تعاون کونسل کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی امریکی صدر نے کہا تھا کہ واشنگٹن اپنے خلیجی اتحادیوں کی دفاعی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہرممکن اقدامات کرے گا۔ انہوں نے خلیجی ممالک کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تہران کو نکیل ڈالنے کے ساتھ ساتھ خلیجی ملکوں کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔