تہران : سعودی عرب کی جانب سے ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دینے کے بعد کئ ملکوں میں شیعہ آبادی کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے جبکہ تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارخانے پر حملہ کیا۔
ادھرامریکہ نے سعودی عرب کی جانب سے ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ ورانہ دشمنی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
امریکہ نے سزائے موت پر عملدرآمد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھے گی جسے موجودہ صورتحال میں کم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ امریکہ محکمہ خارجہ نے خطے کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کریں۔
احتجاجی مظاہرین نے سنیچر کو رات گئے تہران میں سعودی سفارتخانے کی عمارت کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی ہے اور عمارت میں موجود فرنیچر کو توڑ دیا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے پیراملٹری رضاکاروں کے گروہ کو عمارت پر بم پھیکتے ہوئے دیکھا۔
سعودی عرب کی حکومت نے سرکاری سطح پرایران کے سخت ردعمل پر ایران سے تحریری طور پر احتجاج کیا گیا ہے۔ ایران نے اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ سنی مسلک کی حکومت والے سعودی عرب کی جانب سے شیخ نمر کو پھانسی دیا جانا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
سعودی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق ایران کے اشتعال انگیز بیان کے جواب میں ایرانی سفیر کو طلب کر کے ان سے سخت الفاظ میں تحریری طور پر احتجاج کیا گیا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ شیعہ عالم شیخ نمر النمر سمیت 47 افراد کو موت کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد دہشت گردی کے مرتکب تھے۔
شیع نمر سنہ 2011 میں ملک کے مشرقی صوبے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان علاقوں میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور وہ ایک عرصے سے نظر انداز کیے جانے کی شکایت کر رہے ہیں۔
دو سال قبل جب شیخ نمر پر گولی چلائی گئی اور انھیں گرفتار کیا گیا تھا تو سعودی عرب میں کئی دنوں تک کشیدگی رہی تھی۔ اکتوبر میں شیخ نمر کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی۔
ان کے بھائی نے بتایا کہ نمر النمر کو ملک میں ’بیرونی مداخلت‘ چاہنے، حکمرانوں کی ’نافرمانی کرنے‘ اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں شیخ نمر کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی
ایران کے خبر رساں اداروں کے مطابق ایران کے پاسدرانِ انقلاب نے بھی اپنے بیان میں اس کا سخت بدلہ لینے کی بات کی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام کی دولتِ اسلامیہ کے اقدامات سے موازنہ کرنے کی تجویز دی ہے۔
47 افراد کو موت کی سزا ملک کے 12 مختلف مقامات پر دی گئی۔ ان میں ایک کا تعلق کینیڈا اور ایک مصری باشندہ تھا جبکہ باقی سعودی عرب کے باشندے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سنی مسلک کے حامل افراد بھی ہیں جنھیں دہشت گرد حملوں کے لیے موت کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔