تبریز لنچگ معاملہ: عمداًقتل کی دفعہ کا ہٹایا جانا انصاف کاخون کرنے جیسا
اگرتبریز کو ہجوم نے نہیں ماراتو اس کی موت کیسے ہوئی؟، مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی: جھارکھنڈمیں تبریز انصاری کے وحشیانہ قتل کے مقدمہ کی نوعیت تبدیل کرنے پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے سخت افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ قتل نہیں بلکہ حیوانیت اور درندگی کا ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس میں ایک بے گناہ اور بے بس انسان کو کچھ لوگوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا تھا، انہوں نے کہا کہ ہماراملک ہندوستان صدیوں سے امن، اتحاداورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے غم وخوشی میں برابرشریک ہوتے آئے ہیں مگر افسوس کہ نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرنے کی خطرناک روش نے سب کچھ بدل کررکھ دیا ہے چنانچہ اب پچھلے کچھ عرصہ سے ملک بھرمیں مذہب کی بنیادپر موب لنچگ ہورہی ہے کہ جب نفرت میں اندھے ہوکرجھنڈکی شکل میں کچھ لوگ کسی نہتے اوربے گناہ انسان کو پکڑلیتے ہیں اور اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات ہندوستان کے ماتھے پر کلنک اور بدنما داغ ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے جھارکھنڈ ماب لنچنگ کی ایک پریوگ شالہ بن چکی ہے اوروہاں کی سرکاری مشینری نہ صرف اسے شہہ دے رہی ہیں بلکہ مجرموں کو بچانے میں بھی مصروف نظرآتی ہے، انہوں نے کہا کہ تبریز انصاری کے مقدمہ میں مجرموں کو بچانے کے لئے جس طرح اس کی نوعیت تبدیل کردی گئی اورقتل عمد کی دفعہ بھی ہٹادی گئی اور دلیل بھی دی گئی کہ اس کی موت تشددسے نہیں ہارٹ اٹیک سے ہوئی پولس کا یہ عمل انصاف کا خون کرنے جیساہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قاتلوں کو بچانے کی اعلیٰ سطح پر کوششیں ہورہی ہیں کیونکہ اگر اس معاملہ میں اعلیٰ سطح پر مداخلت نہ ہوتی تو جھارکھنڈپولس ایف آئی آر میں ہرگز ایسی تبدیلی نہیں کرسکتی تھی، انہوں نے مطلع کیا کہ جمعیۃعلماء ہند جلد ہی سپریم کورٹ میں مقدمہ کو کسی دوسری ریاست میں منتقل کئے جانے کی درخواست داخل کرے گی اس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کا پینل ایک پٹیشن تیارکرچکاہے، انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ یکم جولائی 2019 کو جھارکھنڈہائی کورٹ میں اس معاملہ کو لیکر ایک پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں اس معاملہ کی سی بی آئی سے تفتیش کرانے کامطالبہ کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کے کسی جج کی نگرانی میں تفتیش کرانے کی بات کہی گئی ہے، پٹیشن میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ اس کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت سے کرائی جائے،اسٹیشن ہاوس آفیسر،جیل سپرنٹنڈنٹ اور صدراسپتال کے ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے مگر افسوس اس پٹیشن پر اب تک سماعت نہیں ہوئی، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جھارکھنڈمیں آئندہ کچھ دنوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے وہاں کی حکومت سے اس طرح کے معاملوں میں انصاف اور قانون کی پاسداری کی امید نہیں کی جاسکتی، انہوں نے سوال کیا کہ اگر تبریز انصاری کو ہجوم نے نہیں مارا تو پھر اس کی موت کیسے ہوئی؟انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈکی پولس ایسا کرکے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک اس معاملہ میں جو کچھ ہواہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر اس مقدمہ کی سماعت کسی دوسری ریاست میں نہیں ہوئی تو تبریز انصاری کے لواحقین کو انصاف نہیں ملے گا اس لئے اب جمعیۃعلماء ہند کی قانونی کارروائی کا بنیادی نکتہ یہی ہوگا کہ یہ مقدمہ کسی دوسری ریاست میں منتقل ہوجائے، مولانامدنی نے آخرمیں کہا کہ یہ تنہاجھارکھنڈکا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ دوسری ریاستوں میں بھی متاثرین کو انصاف نہیں مل رہا ہے، پہلوخاں کے معاملہ میں جو کچھ ہوا وہ یہ بتاتاہے کہ انصاف بھی اب نفرت کی سیاست کا شکارہوچکاہے اور انتظامیہ وپولس کے لوگ سیاسی دباؤمیں انصاف اور قانون کا گلاگھونٹ رہے ہیں۔