ہندی گورکھپور کی تخلیقات اور اس کے مثبت اثرات کو فرامو ش نہیں کیاجاسکتا:حافظ عثمان
انقلابی شاعر ہندی گورکھپوری شعری مجموعہ ’کلیات ہندی‘کا رسم اجراء
لکھنؤ۔ انقلابی شاعر ہندی گورکھپوری کی شاعری میں مختلف رنگ و آہنگ ملتے ہیں۔ ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جس میں داخلی اور خارجی دونوں پہلو نمایاں ہیں۔ غزل کا شاعر اپنے تجربات ، احساسات اور جذبات کو شعر کے قالب میں ڈھالتا ہے تو اس میںآفاقیت کا وصف پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس خارجی انداز میں کہی گئی غزلیں وقتی ہوتی ہیں ، جو دیر تک اپنا اثر باقی نہیں رکھ پاتی ہیں۔ ہندی گورکھپوری کی شاعری میں خارجیت کا کم داخلیت کا دخل زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آج بھی اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے۔ ان خیالات و احساسات کا اظہار مقررین نے وحیدالدن ہندی گورکھپوری کے شعری مجموعہ ’کلیات ہندی گورکھپوری‘ کے رسم اجراء کے موقع پر کیا۔ کلیات کا اجراء ریاستی انفارمیشن کمشنر حافظ عثمان کے بدست آر ٹی آئی بھون گومتی نگر میں ہوا۔ ا س موقع پر حافظ عثمان نے ادب اور حالات حاضرہ کے حوالے سے کہاکہ قلم کار کی ادبی تخلیقات ہردور اور معاشرہ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں خاص طور پر برصغیر میں تحریک آزادی میں انقلابی قلمکاروں کی ادبی تخلیقات اور اس کے مثبت اثرات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ ان کی شاعری ملک کا بڑا سرمایہ ہے۔ ابتدائی دور میں ان کی انقلابی نظم سے برطانی حکومت اس قدر خوف زدہ ہوگئی کہ ا نگریزوں نے اسے ضبط کرلیا اور ان کے خلاف ورانٹ جاری کردیا۔ مجاہدآزادی ہندی گورکھپوری نے ہندوستان سے وابستگی کا عملی ثبوت فراہم کرتے ہوئے ہندی کو اپنے نام کا جز بنا لیا اور اسی نام سے دنیا ان کو جانتی پہنچانتی ہے۔
ہندی گورکھپوری کی اس کلیات کو ڈاکٹر سلیم احمد اور ثمینہ ادیب ضیاء نے مرتب کیا ہے۔ ا س موقع پر کلیات کے مرتب ڈاکٹر سلیم احمد نے کہاکہ مجھے اپنے ہم جماعت اور ہندی گورکھپوری کے بیٹے انور جمال کے ساتھ ان کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کو پڑھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ان کی شرافت النفسی، حب الوطنی ، انقلابی شاعری اورخدمت سے اس قدر متاثر ہوا کہ ان کی بیٹی ثمینہ ادیب ضیاء کے اسرار کو انکار نہیں کرسکا۔ لہٰذا’ کلیات ہندی‘ کی ترتیب و تدوین میںثمینہ صاحبہ کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ جو میرے لئے باعث مسرت اور باعث فخر ہے۔ اس موقع پر ٹانڈہ سے آئے ڈاکٹر امین احسن نے بتایاکہ ہندی صاحب کو ہندوستان سے جنون کی حدتک محبت ، عقیدت تھی او ر اسی بنیاد پر انہوں نے اپنا قلمی نام ہندی گورکھپور کرلیا۔ چار درجن کتابوں کے مصنف انس مسرور انصاری نے کہاکہ ہندی گورکھپوری کا جس قدر تعلق گورکھپور سے تھا اسی طرح ٹانڈہ سے بھی تھا۔ اس موقع پر مرادآباد سے آئے خالد مرادآبادی ودیگر افراد بھی خصوصی طورپر موجود رہے۔ کتاب کی رسم اجراء پر یوپی اردو اکادمی کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مخمور کاکوروی نے بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔