از: مفتی محمدیحییٰ قاسمی

رکن شریعہ کمیٹی، جمعیۃعلماء حلال فاؤنڈیشن (JUHF)

امول آئس کریم کے حلال و حرام ہونے کے تعلق سے گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے بہت ساری فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔فون کرنے والے امول آئس کریم کے مواد ترکیبیہ میں سے E471 کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ کچھ ویڈیوز کے ذریعہ ہمارے پاس یہ اطلاع آرہی ہے کہ امول آئس کریم مذکور ہ E471 کی وجہ سے حرام ہے ؟ ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ شوسل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ امول اپنے آئس کریم اپنے اجزائے ترکیبیہ میں ایک جز E471 استعمال کرتا ہے جو کہ سور کی آنت سے نکلتا ہے۔ کئی گروپس نے ویڈیو بھی شیئر کیا ہے،جس میں یہ دعوی کیاگیا ہے کہ امول نے 'اقلیتوںخاص طور پر مسلمانوں کے جذبات کی توہین کی ہے

آج کل فضا چل پڑی ہے کہ فیس بک اور واٹس اپ پر کوئی میسیج آیا کہ اسے آگے بھیج دو پتہ نہیں کہ سچ ہے یا جھوٹ، بس شیئر کردیا، ایسے میں کہیں جھوٹی خبر تیزی سے پھیلتی ہے؛ اس لئے سب سے پہلے، بطورمومن ہماری مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہمارے پاس کسی کے تعلق سے کوئی بھی اطلاع آئے خا ص طور پر جب اسلام اور حلال و حرام کی بات ہو تو تو اس کو آگے بھیجنے سے پہلے اس کے ہر پہلو کو بہت فہم کے ساتھ جانچ لیا جائے ، پرکھ لیا جائے اور اس کی تحقیق کرلی جائے، جیسا کہ اللہ تعالی ٰ مومنوںکو قرآن کریم کے سورہ حجرات میں یہ حکم دیتا ہے: ''اے ایمان والو! اگرکوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو،کبھی کسی قوم کونادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پرپچھتانا پڑے (سورہ حجرات۶، آیت ۶) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے، خواہ امن یا خوف، تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جواُن میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے ہیں جوان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ النسائ: آیت ۸۳) تیسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جس بات کا یقینی علم نہ ہو (اٹکل پچو) اس کے پیچھے نہ ہولیا کرو، (کیوں کہ) کان، آنکھ اور دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل:آیت ۳۶) چوتھی جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جوواہیات قصے مول لیتا ہے تاکہ (لوگوں کو سنا کر) بے سمجھے بوجھے راہ خدا سے بھٹکائے اور آیات الہٰی کی ہنسی بنائے، ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) ذلت کاعذاب ہے۔‘‘ (سورہ لقمان، آیت ۶)

اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات دوسروں کو بتلائے، شراح حدیث نے لکھا کہ اس میں زجر (ڈانٹ) ہے، ان لوگوں کے لئے جو بلا تحقیق ہر سنی ہوئی یا پڑھی ہوئی بات آگے دوسروں کو بتلادیتے ہیں۔(مسلم، مقدمہ)

ایک دوسری روایت میں حضرت سہل بن ساعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی کام میں آہستگی و بردباری اللہ کی طرف سے ہے یعنی یہ خوبی الہام الٰہی کے ذریعہ کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے اور جلد بازی شیطان کی خصلت ہے۔(مشکوۃ المصابیح جلد چہارم۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان۔ حدیث 984 ) جلد بازی شیطان کی خصلت ہے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دنیاوی کام میں غور و فکر نہ کرنا، اس کے انجام پر نظر رکھے بغیر اس کو شروع کر دینا اور جلد بازی کی روش اختیار کرنا ایک ایسی خصلت ہے جس کو شیطان وسوسوں اور واہمات کے ذریعہ انسان کے اندر پیدا کرتا ہے جس سے اس کا مقصد اس کے کام کو خراب کرنا ہے اور خود اس کو پریشانیوں میں مبتلا کرنا ہے۔

اوپر مذکورہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی خبر کو آگے بھیجنے سے پہلے ا س کی چھان بین کرلی جائے تاکہ کسی مضرت یا مذمت وعیب جوئی پرمشتمل نہ ہو۔
اس لئے کسی خبر کی اشاعت اور نشر کرنے سے پہلے دو باتیں ملحوظ رکھی جائیں:

1 – آہستگی اور بردباری اور جلد بازی سے مکمل اجتناب:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں آہستگی و بردباری اللہ کی طرف سے ہے یعنی یہ خوبی الہام الٰہی کے ذریعہ کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے اور جلد بازی شیطان کی خصلت ہے۔(جلد چہارم۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان۔ حدیث 984 )

2 – خبر کی تصدیق و توثیق

جیسا کہ اللہ تعالی ٰ مومنوںکو قرآن کریم کے سورہ حجرات میں یہ حکم دیتا ہے: ''اے ایمان والو! اگرکوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو،کبھی کسی قوم کونادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پرپچھتانا پڑے (سورہ حجرات۶، آیت ۶)

تصدیق سے مراد یہ ہے کہ معاملات کی سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، تاکہ اس کا سچ یا جھوٹ ہونا ثابت ہوجائے۔اسی طرح اس کی توثیق کا مطلب ہے کہ رپورٹ کی حقیقت اور اس کے حالات کے پس منظر میں اس کی تصدیق اور تکذیب کرنا۔

مذکورہ دو اصولوںکی روشنی اگر ہم متعلقہ مسئلہ جس میں E471 کی وجہ سے امول آئس کریم کہا گیا ہے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جو شخص یہ ویڈیو پھیلارہا ہے وہ ای نمبر کے بنیادی تصور اوراس کے حقائق سے بے خبر ہے۔وہ E471 کے ماخذ اور مشمولات سے بالکل واقف نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف شہرت پانا ہے۔

اس لئے سب سے پہلے ’ای نمبر‘ کی تعریف اور اس کی حقیقت سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس کی روشنی میں E471 کو سمجھ سکیں۔آئیے سب سے پہلے تجزیہ کرتے ہیں کہ ’’ای نمبر‘‘ کیا ہے؟

ای نمبر (E-Number) ان اجزاء کے کوڈ (مخفف اور اشارے) ہیں جو یورپی یونین اور ای ایف ٹی اے علاقے میں، کھانے کی مصنوعات میں بطور اضافی اجزائ(food additives ) استعمال کی جاتی ہیں۔ ''ای'' سے مراد''یورپ'' ۔عام طور پر کھانے کی مصنوعات کے لیبل پر پایا جاتا ہے، اس کا تحفظ اور منظوری یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی ذمہ داری ہے۔(ویکیپیڈیا)

جنوبی افریقی نیشنل حلال اتھارٹی (SANHA) نے ’’ای نمبر ‘‘کی وضاحت اس طرح کی ہے:

E-Numbers خاص قسم کے فوڈ اضافیہ (food additives) کی نمائندگی کرتے ہیں، جو مختلف کھانے کی مصنوعات کی تیاری میں استعمال کئے جاتے ہیں، ۔یہ’’ ای نمبر‘‘ یورپی اقتصادی کمیونٹی (ای ای سی) کی طرف سے تیار کئے گئے ہیں اور عالمی سطح پر کھانے کی صنعت میں ان ای نمبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ای نمبروںکو مندرجہ ذیل زمرہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے:

E100-199 فوڈ رنگ، E200-299 پریزرویٹو، E300-399 اینٹی آکسائڈنٹ، فاسفیٹس، اور کمپلیکسنگ ایجنٹس، E400-499 تھکنرس، جیلنگ ایجنٹس، فاسفیٹس، ہومکٹینٹس، املسی فائر، E500-599 سالٹ اور متعلقہ مرکبات، E600-699 ذائقہ بڑھانے والے، E700-899 کھانے کی dditives کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے (فیڈ additives کے لئے استعمال کیا جاتا ہے)، E900-999 سرفیس کوٹنگ ایجنٹس، گیسس، سیوٹنر، E1000-1399 متفرق additives، E1400-14 99 اسٹارک ڈیریوٹیوز۔

فتی ابراہیم ڈیسائی،جنوبی افریقہ زیادہ تر’’ ای نمبروں‘‘ کی اصل او رماخذحلال ہے، کچھ کی حرام اور کچھ ای نمبر ایسے ہوتے ہیں جن کی اصل او ر ماخذدونوں ہوا کرتا ہے یعنی کبھی تو اس کی اصل حیوانات ہوں گے اور کبھی نباتات، اس کو ’مشبوہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یعنی اس کی اصل کے بارے میں شبہ ہے۔ E471 اسی آخری یعنی’ مشبوہ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔چوں کہ یہ ایک مختصر مضمون ہے ،اس لئے تمام حلال و حرام اور مشبوہ ای نمبروں کی تفصیلات ممکن نہیں ہے ، اس لئے یہاں صرف E471 کی وضاحت کی جائے گی، اس لئے کہ اسی کو امول آئس کریم کے حوالے سے شوسل میڈیا پر غلط انداز سے پیش کیا گیا۔

چنانچہ E471 فوڈ اضافیہ (additives ) میں سے ہے اور ’مشبوہ‘ کے زمرے میں آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اصل حیوانات میں سے بھی ہوسکتی ہے اور نباتات میں سے بھی ، لہذا وہ مصنوعات جن میں E471 کا استعمال ہوا ہے، ہرہر پرودکٹ کی علیحدہ علیحدہ تحقیقات ضروری ہے تا کہ اس کے ماخذ کا پتہ چل سکے۔
مفتی ابراہیم ڈیسائی، جنوبی افریقہ فرماتے ہیں:

زیادہ تر ’ای نمبر‘ حلال ہیں تاہم، کچھ ایسے اجزاء بھی ہیں جن کو ’مشبوہ‘ (شک و شبہ کی وجہ سے قابل تفتیش ہو تا ہے)کہا جاتا ہے،اور انفرادی طور پر ہر ہر مصنوعات کی جانچ پڑتال ہوکیونکہ ان کا خام موادکبھی جانوروں سے کبھی پودوں اور کبھی سبزیوں سے حاصل کیا جاتاہے۔’مشبوہ‘ ای نمبروں کے لئے مندرجہ لنک ملاحظہ کریں:

http://www.askimam.org/public/question_detail/18042

اوپر وضاحت کی روشنی میں، ہم E471جائزہ لیتے ہیں ، تاکہ ہم درست رائے تک پہنچ سکیں۔E471 فیٹی ایسڈ کے مونو ڈگلیسی ائڈز کا کوڈ اور اشاریہ ہے ۔یہ ایک ایملسیفائیراور سٹیبلائزر ہے – سالٹ یا فیٹی ایسڈ کا ایسٹر۔مفتی ابراہیم دیسائی کے مطابق: E471 کی حلال ہونے کی حیثیت ’’مشبوہ‘‘کے درجے میں ہے گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حلال ہو گا اگر اس کی اصل اورماخذ سبزیاں اور نباتات ہیں، اور حرام ہے اگر اس کی اصل اور ماخذ سور کی چربی ہے۔

اب امول آئس کریم کے بارے میں سوال پر آتے ہیں جس میں E471 کا استعمال ہوتا ہے ،کہ یہ حلال ہے یا نہیں؟ چنانچہ اوپر ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں E471 پر مشتمل امول آئس کریم ’’مشبوہ‘‘ کے زمرے میں آئے گا۔اس کا مطلب ہے کہ صارفین کو امول کے اسE471 پرمشتمل آئس کریم کو چیک کرنا ہوگا کہ یہ حلال ہے یا نہیں؟

لہذا  اب آئیے امول آئس کریم میں استعمال ہونے والے  E471 کی تحقیق اور تفتیش کرتے ہیں:

اس سلسلے میں سب سے پہلے خود’’ نیشنل کوآپریٹیو امول‘‘ کی وضاحت کو دیکھتے ہیں جوکہ’’ ڈی این اے‘‘ اخبار میں ۷/ ستمبر2018 شائع ہوئی ہے۔ نیشنل کوآپریٹیو امول نے جمعہ کو شوشل میڈیا پر گردش کررہے اس افواہ پرافسوس کا اظہار کیا ہے کہ امول جو ایملسیفائر( E-471 ) استعمال کررہا ہے ا س کی اصل اور ماخذ جانور ہے۔امول کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس کا عنوان ہیـ’’دی ٹیسٹ آف انڈیا از پیور ویجیٹیرین‘‘ (ہندوستان کا ذائقہ یعنی امول خالص سبزیوں پر مشتمل ہے ) امول نے کہا کہ 'وہ ان تمام الزامات کی بالکلیہ نفی کرتا ہے ۔پریس ریلیز میں مزید کہاگیا کہ ـ’’ ایملسیفائر جانوروں کی چربی یا پودوں کے تیل (سویا بین، کنڈی، کھجور، سورج مکھی، ناریل کے تیل وغیرہ) سے بنایا جاتا ہے۔ـ’’دی ٹیسٹ آف انڈیا ـ‘‘ میں ہم جو ایملسفائر استعمال کرتے ہیں اس کی اصل اور ماخذ سو فیصد نباتات ہیں۔ یہ بیان امول کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے :

http: //www.amul.com/products/amulice-cream-100-percent-vegetarian.php

دوسری طرف ، جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن (JUHF) نے امول کے مصنوعات کی تصدیق کی ہیں۔جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن (JUHF)کے حلال آڈیٹروں نے امول کے مصنوعات کی خام مال کے وصولی سے لے کر مال کے تیار ہونے اور پینکنگ تک کے تمام طریقۂ کار اور مراحل کی جانچ پڑتال کی ہے۔مکمل اور جامع آڈٹ اور جانچ پڑتا ل کے بعد، انہوں نے پا یا کہ امول میں استعمال ہونے والےE471 کی اصل نباتات اور سبزیاں ہیں۔اور پھر آڈٹ پروسیسنگ کا جائزہ لینے کے بعد، جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن نے ذیل میں منسلک امول کی مصنوعات کو حلال سرٹیفکیٹ دیا۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن(JUHF) کے آڈیٹروں نے اس بات کی تحقیق و تفتیش کیسے کی کہE471 کی اصل اور ماخذ نباتات اور سبزیاں ہیں: جواب یہ ہے کہ JUHF کے آڈیٹروں نے امول کو E471 فراہم کرنے والی کمپنی ’’لوسڈ کولیڈسلمیٹڈ (Lucid Colloids Limited ) کی بھی تفتیش اور تحقیق کی ہے اور اس کے بعد اس کو جے یو ایچ ایف نے حلال سرٹیفیکٹ دیاہے۔ اس تحیقق میں آڈیٹروں نے خام مال سے لیکر مصنوعات کے تیار ہونے تک کے ہر مرحلے کی تفتیش کی کہ E471 کی اصل کیا ہے، انہوںنے پایا کہ اس کا ماخذ ہربل اور نباتات ہیں۔چنانچہ آدیٹرس کی آڈٹ پر نظر ثانی کے بعد جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن نے ’’لوسڈ کولیڈسلمیٹڈ (Lucid Colloids Limited ) کو حلال سرٹیفیکٹ دیا ہے۔ امول کی ویب سائٹ پر اس کمپنی کا بھی سرٹیفیکٹ موجود ہے۔لنک پر کلک کریں: http://www.amul.com/products/amul-ice-cream-100-percent-vegetarian.php ۔

مذکورہ تمام وضاحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امول آئس کریم کے حوالے سے پھیلائی جارہی ویڈیو اور معلومات بالکل فرضی اور افواہ ہے ،حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔لہذا امول کی وضاحت اور جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن کے ٹیم کی تفتیش اور اس کے حلال سرٹیفیکٹ کے بعد، ہم کہہ سکتے ہیں کہ امول آئس کریم حلال اور مسلمانوںکے لئے قابل استعمال ہے۔

آخر میں، ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے معاملات کی توثیق کریں اور خبروں آگے بھیجنے سے پہلے اس کی پوری طرح تصدیق کریں اورجب تک اس بات کا یقین نہ کر لیں کہ یہ سچ ہے اس کو فارورڈ نہ کریںا گرچہ وہ خبر اچھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ اگریہ خبرغلط ہوئی تو بھیجنے والا شخص لوگوں کے بیچ اعتبار سے محروم ہوجائے گا۔ اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ شخص یہ خبر کسی دشمنی یا نقصان پہنچانے کی غرض سے پھیلا رہا ہو۔اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں اپنے رضا کے کام کرنے کی توفیق عظا فرمائے۔آمین۔