عالمی تیل مافیا،استعماری دھمکیاں اور ہندوستان
عادل فراز
عالمی بازار میں کچّے تیل کی دن دوگنی اور رات چوگنی قیمتوں میں افزودگی عالمی معیشت پر اثراندازہورہی ہے ۔دنیا کے بیشتر ممالک تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو لیکر فکر مند ہیں ۔تیل کی مہنگائی نے دیگر اشیاء کو بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر کردیاہے۔تیل کی قیمتوں میں افزودگی کے ساتھ ٹرانسپورٹ بھی مہنگا ہوا ہے ،ظاہر ہے اس کا اثر گھریلو بازار پر مرتب ہوتاہے جسکی بنیاد پر ضرورت کی چیزیں مہنگی ہورہی ہیں۔خاص طورپر ہندوستان کرنسی کے مسلسل زوال اور بڑھتی ہوئی گرانی سے پریشان ہے ۔حزب اختلاف بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کو مسلسل ہدف تنقید بنارہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو تیل کمپنیوں کے اہم عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کی ضرورت پیش آئی ۔مگر یہ قابل غور ہے کہ ہندوستان جن ممالک سے سب سے زیادہ تیل کی خریداری کرتاہے ان ممالک کو اس اجلاس میں مدعونہیں کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ حکومت مسلسل تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو لیکر سنجیدہ نہیں ہے ۔محسوس ہوتاہے کہ حزب اختلاف کی زبان بندی اور عوام کو یہ یقین دہانی کرانے کے لئے یہ اجلاس طلب کیا گیا تھاکہ حکومت کچّے تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ پر فکر مند ہے مگر ایران اور عراق جیسے ملکوں کے نمائندوں کو اس اجلاس میں دعوت نہ دینا حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسی کو ظاہر کرتاہے ۔
ایران پر آمرانہ امریکی پابندیوں کے بعد عالمی بازار میں کچّےتیل کی قیمتیں دن بہ دن اچھال پر ہیں ۔تیل مافیا جو عالمی منڈی پر قابض ہے اسکے پاس بھی بے تحاشا دولت بٹورنےکا سنہری موقع ہے ۔یہ مافیا ئی نظام دنیا کے لئے کوئی پراسرار نظام نہیں ہے بلکہ وہی عالمی استعمار ہے جو ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی منصوبہ بندیوں میں ملوث ہے ۔امریکہ اس استعماری نظام کا ایک حصہ ہے اور ٹرمپ اس نظام کا آلہ ٔ کار ۔اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ ایران پر پابندیوں کا مقصد ایران کے اقتصادی ڈھانچہ کوتباہ کرکےحکومت کو جھکانا واحد مقصد نہیں ہے بلکہ عالمی بازار پر اپنے تسلط کو ابھارنا اور بے تحاشا لوٹ بھی استعمار کا مخفی ایجنڈا ہے ۔افسوس یہ ہے کہ عالمی سطح پر اس نظام کی آمرانہ پالیسیوں کی پرزور مخالفت نہیں کی گئی ۔اگر پوری دنیا مل کر مخالفت پر کمربستہ ہوجائے تو عالمی بازار پر مسلط مہنگائی کا عفریت ’اُڑن چھو‘ ہوجائے گا مگر استعمار عالمی بزدلی اور مصلحت آمیز سکوت کی سیاست سے بخوبی واقف ہے اس لئے جو اس کا دل چاہتاہے وہی کرتاہے ۔فقط چین اور روس جیسے اکّا دُکّا ممالک کی مخالفت کا اثرعالمی بازار پر مرتب نہیں ہوسکتا جب تک آدھی دنیا اس جبروتی نظام کے خلاف کمربستہ نہیں ہوگی ۔دنیا کی خاموشی اور تیل افزودگی کرنے والے ممالک کا نفاق عالمی معیشت کو تباہی کی طرف لے جارہاہے ۔اس کا واضح اثر ہندوستانی معیشت پر بھی پڑاہےمگر ہندوستان ابھی تک کشمکش کا شکارہے کہ آخر ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھ کے اپنے نئے نویلے دوست اسرائیل کو کیسے ناراض کردے ۔کیونکہ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ’’اسرائیل اور ہندوستان جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں‘‘ ۔انہوں نے اپنے کالم میں لکھاتھاکہ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان بعض سیاسی رہنمائوں کی عدم بصیرت نےدوستی کا فروغ نہیں ہونے دیا مگر اب ہندوستان اسرائیل سے دوستی کا فروغ چاہتاہے۔اس لئےہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان ابھی اسرائیل کو ناراض کرنے کا ارادہ نہیں رکھتاہے اس لئے امریکی انتباہ کی مدت کے خاتمہ سے قبل وہ ایرانی تیل کا متبادل تلاش کرلینا چاہتاہے۔
۱۴ اکتوبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نےعالمی و ملکی تیل کمپنیوں کے اہم عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کرکے تیل کی قیمتوں کو قابومیں کرنے کےمسئلے پر غوروخوض کیا ۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکاہے کہ اس اجلاس سے کیا مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں مگر وزیر اعظم نریندر مودی کی سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کی عاجزانہ فریاد یہ بتارہی ہے کہ ابھی کسی کے پاس اس مسئلےکا حل موجود نہیں ہے کیونکہ ایران دنیا کے ان چنندہ ممالک میں شامل ہے جودنیا کے بیشتر ممالک کو ریکارڈ تیل کی سپلائی کرتے ہیں۔اگر یہ سپلائی امریکی دبائو میں متاثر ہوتی ہے تو فقط ہندوستان ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کی معیشت پر بھی اس کا گہرا اثر مرتب ہوگا جس کا عندیہ انہیں مل چکاہے ۔مگر ہندوستان کے سامنےسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھ کےاپنے نئےدوست اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ۔جبکہ وزارت خارجہ نے مسلسل اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ امریکی دبائو میں ایران سے تیل کی خریداری بند نہیں کرسکتا کیونکہ وہ امریکی پابندیوں کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور نہیں ہے ۔مگر ہندوستان میں دن بہ دن روپیہ کی گراوٹ ،بڑھتی ہوئی مہنگائی ،معیشت کی ریکارڈ تنزلی اور ۲۰۱۹ ء کے انتخابات نے حکومت کی راتوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو تیل کمپنیوں کے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کرکے موجودہ صورتحال اور مستقبل میں درپیش مسائل کو سمجھنے کی ضرورت پیش آئی ۔لیکن اجلاس کے بعد سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کی فریاد کرنا یہ بتاتاہے کہ ہندوستانی حکومت امریکی دبائو کے سامنے جھکنےکی تیاری میں ہے ۔کیونکہ تنہا سعودی عرب کے ذریعہ قیمتیں کم کرنےسے عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں کم ہونا بعید از قیاس ہے جب تک تیل کے اہم اور بڑےسپلائر ممالک کچّے تیل کی قیمتوں کو کم نہیں کرینگے ۔اگر ہندوستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ عراق اور ایران سے بھی قیمتوں کی کمی کو لیکر بات چیت کرتی تو ممکن ہےکوئی بہتر راہ نکلتی ۔کیونکہ ہندوستان نئے معاہدہ کے تحت ایران سے ریکارڈ ۲۵۰ لاکھ ٹن کچا تیل خریدرہاہے جو کل تیل کی خریداری کا تقریباََ ۹ فیصد ہے ۔سعودی عرب سے درآمد تیل اس سےایک فیصد زیادہ ہے مگر عراق سے ۱۲ فیصد کے قریب تیل کی خریداری کی جاتی ہے ۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب سے زیادہ تیل کی خریداری ہندوستان عراق سے کرتاہے اس لئے ایران اور عراق سے بھی گفت و شنید ضروری تھی۔لیکن ابھی یہ ممکن نظر نہیں آتاہے کہ ہندوستان ایران سے تیل کی قیمتوں کو گھٹانے کےمسئلے پر کسی اجلاس کا اہتمام کرے کیونکہ موجودہ بی جے پی حکومت امریکی دبائو سے زیادہ اسرائیلی دبائو کے سامنےسر تسلیم خم کئے ہوئے ہے۔اسرائیل نہیں چاہتاہے کہ ہندوستان جیسے اہم ممالک ایران کےساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات بحال رکھیں کیونکہ اس طرح ایرانی معیشت کو نقصان پہونچانا ممکن نہیں ہوگا ۔ہندوستان بھی چونکہ اسرائیل کا نیا نیادوست ہے اور بی جے پی حکومت اسرائیل نواز ی میں اپنی مثال آپ ہے ،کبھی نہیں چاہے گی کہ اسرائیل کی ناراضگی مول لی جائے ۔
رہا تنہا سعودی عرب کا مسئلہ تو وہ ایران کی تباہی کے خواب سنجوئے ہوئے ہے۔وہ چاہتاہے کہ ایران کے اقتصادی ڈھانچہ کو برباد کردیاجائے کیونکہ خطّے میں ایران کے علاوہ اس کا کوئی حریف نہیں ہے ۔سعودی عرب امریکہ و اسرائیل کا حلیف بھی ہے جس کا فائدہ اسے عالمی بازار میں پہونچتاہے۔اسی کے چلتے اس نے ہندوستان کے ساتھ کچّے تیل کی فروخت میں بڑھوتری کے لئے نیا معاہدہ کیاہے ۔سعودی عرب کے پٹرولیم وزیر خالد الفلاح نے بھی یہ دعویٰ کیاہے کہ وہ ’’ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے پیش نظر ہندوستان کوایرانی تیل کی کمی کو پوراکرنے کے لئےہردن 1.1 کروڑ بیرل تیل پہونچائے گا ‘‘۔ خالد الفلاح کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنےحلیف ممالک کی خوشنودی کے لئے ایران دشمنی میں کسی بھی حد تک جاسکتاہے ۔جبکہ عالمی تجزیہ نگاروں کا یہ کہناہے کہ سعودی عرب اتنی صلاحیت نہیں رکھتاہے کہ وہ عالمی بازار میں ایران کی کمی کو پورا کرسکے مگر امریکہ اوراسرائیل کی پشت پناہی کی بنیاد پر سعودی عرب اس کوشش میں ہے کہ وہ عالمی بازار میں ایران کی ساکھ کو متاثر کرے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب ہندوستان کو تیل کی رقم کے بھگتان کے لئے اتنی ڈھیل دے سکتاہے جتنی ایران دے رہاہے ۔وزیر اعظم نریندرمودی نے بھی سعودی عرب سے یہ مطالبہ کیاہے کہ وہ تیل کی رقم کے بھگتان کے لئے کم از کم ایران جتنی ڈھیل ضرور دے ۔ممکن ہےسعودی عرب ایران دشمنی میں یہ شرط بھی قبول کرلے مگر جب تک ہندوستان تجارتی کرنسی سے ڈالر کو باہر نہیں کرے گایہ مشکل اسکے سامنے کھڑی رہے گی ۔ہندوستان بھی یہ چاہتاہے کہ اسکے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک ڈالرکے بجائے کچھ بھگتان ر وپیہ میں قبول کرلیں تاکہ روپیہ کو مزید گراوٹ سے بچایا جاسکے ۔ظاہر ہے وزیر اعظم نے غوروفکر اور منصوبہ بندی کے بعد ہی یہ پیشکش کی ہوگی اس لئے ہندوستان کو اس مطالبہ پر اصرار کرنا چاہئے کہ تجارتی کرنسی میں روپیہ کو شامل کیا جائے۔
حکومت ہند کو چاہئے کہ جس طرح تیل کی قیمتوں کو قابو میں کرنے کے لئے سعودی عرب کے ساتھ اجلاس رکھا گیا ہے اسی طرح عراق ،ایران اور دیگر تیل کے بڑے سپلائرز کے ساتھ بھی ایک اجلاس کیا جائے تاکہ اس مشکل کا حل تلاش کیا جاسکے۔فقط سعودی عرب ہندوستان کی مشکلیں کم کرنے میں معاون نہیں ہوسکتاہے جب تک دیگر تجارتی حلیف ممالک سے گفت و شنید نہ ہو ۔اسرائیلی اور امریکی دبائو میں آکر ملک کی معیشت کو تباہ نہ کیا جائے ورنہ ملک کے عوام اور ہندوستان کی تاریخ موجودہ قیادت کی ناعاقبت اندیشی کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔