جانوروں کی طرح جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی
عادل فراز
انسان اور حیوان میں بنیادی فرقی اصول حیات کا ہے ۔انسانی زندگی قدم بہ قدم اصولوں اور ضابطوں سے گھری ہوئی ہے مگر حیوان ہر قانون اور اصول سے بے نیاز جدھر چاہتاہے منہ مارتاہے ۔انسان زندگی کے ہرلمحہ میں کسی نا کسی تہذیب اور قانون کا پابند ہوتاہے ۔اس تہذیب و قانون نے ضروری نہیں کہ کسی مذہب اور مسلک کی کوکھ سے جنم لیا ہوبلکہ یہ سماج و معاشرہ کی اپنی پیداور ہوتے ہیں۔انسان مذہبی و مسلکی قوانین سے زیادہ سماج و معاشرہ کےقانون پر عمل پیرا ہوتاہے کیو نکہ وہ اس سماج کا اٹوٹ حصہ ہوتاہے ۔چونکہ ہمارا معاشرہ مشترکہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہاہے اس لئے ہم مذہب کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہوئے بھی تہذیب کے لحاظ سےایک معلوم ہوتے ہیں۔مگراب مشترکہ تہذیب پر قانونی حملہ ہورہاہے ۔اس معاشرہ کو حیوانوں کی تہذیب سکھائی جارہی ہے اور انسان جانوروں کی تہذیب میں سکون تلاش کررہاہے۔جس طرح جانورکسی بھی مادہ کے ساتھ علی الاعلان اختلاط کرتے نظر آجاتے ہیں اب انسان بھی اسی طرح جنسی تعلق قائم کرتے نظر آئیں گے ۔جس طرح ہم سڑک سے گزرتے ہوئے حیوانوں کے جنسی مناظر دیکھ کر شرم سے نظریں جھکالیتے تھے اسی طرح اب ہم اپنی بہو بیٹیوں کو علی الاعلان جنسی رشتے قائم کرتے دیکھ نظریں جھکاکر آگے بڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہندوستان میں شادی شدہ جوڑوں کو بھی غیر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی مکمل آزادی دیدی گئی ہے ۔اس آزادی کا احترام یہی کہتاہے کہ ہم اپنی بہو بیٹیوں کے ہر جنسی عمل پر راضی برضا رہیں اور بس!اس قانون کو منظوری کے بعد فحاشی اور بے حیائی کو آئینی درجہ مل گیا ہے اس لئے اب ہم ’بدکردار‘اور’بدکار‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ ایسے الفاظ کو لغت سے بھی نکال دینا چاہئے کیونکہ اب ان الفاظ کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔
ہندوستان میں دفعہ ۳۷۷ میں ترمیم کے بعد ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دیدی گئی تھی ،اسکے فوراََ بعد اب دفعہ ۴۹۷ کو بھی ختم کردیاگیاہے ۔دفعہ ۳۷۷ کو آئینی منظوری کے بعد ہم جنس پرستوں نے عید منائی تھی اور اب چھپ چھپاکر عیاشی کرنے والا طبقہ خوشیاں منارہاہے۔قانونی طورپر شادی کے بغیر ایک مرد عورت کے ساتھ جب تک چاہے آپسی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرسکتاہے اور جب چاہے دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوسکتے ہیں۔اسی طرح شادی کے بعد بھی مرد اور عورت کسی غیر مرد کے ساتھ آپسی رضامندی سے جسمانی تعلق قائم کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔پکڑے جانے پر انکے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی ۔یعنی اب فحاشی اور بے حیائی کا گھنائونا کھیل گھر کی چہاردیواری کے اندر علی الاعلان کھیلا جائے گا ۔ماں باپ ،بھائی اور شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی بہو ،بیٹی یا بیوی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سےقانوناََ روک سکیں۔ایسا کرنے پر انکے خلاف ہی قانونی کاروائی کا حق محفوظ ہوگا ۔
فحاشی اور بے حیائی کے اس قانون کو منظوری ملنے کے بعداب یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہوجائے گا کہ کس بچے کا باپ کون ہے ۔کیونکہ شادی شدہ مردو خواتین اگر رضامندی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتے ہیں، اسکے نتیجہ میں جو نسل عالم وجود میں آئے گی اسکےسلسلے میں یہ کیسے معلوم کیاجائے گا کہ کس بچہ کا باپ کون ہے اور اسکے حقوق کیاہیں؟۔عدلیہ نے فیصلہ سناتے وقت یہ واضح نہیں کیا کہ اگر ایک شادی شدہ خاتون کے ساتھ کئی مرد جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں اوران تعلقات کے نتیجہ میں حمل ٹہرتاہے تو وہ بچہ کس کا مانا جائے گا ۔ممکن ہے یہ کہاجائے کہ آج میڈیکل سائنس بہت ترقی کرچکی ہے اس لئے ڈی این اے کے ذریعہ بڑی آسانی سے یہ معلوم کیاجاسکتاہے کہ بچہ کا اصلی با پ کون ہے ۔مگر پھر سوال قائم رہتاہے کہ عدلیہ نے اس قانون کو منظوری دینے سے پہلے سرکار سے یہ اعدادو شمار حاصل کئے ہیں یا نہیں کہ آیا ایک وقت میں کتنی خواتین کو ڈی این اے کی یہ سہولت دی جاسکتی ہے ؟اس بچہ کے اخراجات کس پر واجب ہونگے ؟۔اس کی تمام تر ذمہ داریاں ماں ادا کرے گی یاباپ کو یہ فرائض نبھانا ہونگے؟۔
حقیقت حال یہ ہے کہ دفعہ ۳۷۷ اور دفعہ ۴۹۷ کو ختم کرکے عدلیہ نے ہندوستان میں زنا اور ہم جنس پرستی کی راہیں کھول دی ہیں۔نئےقانون کے مطابق بیوی شوہر کی ملکیت نہیں رہی اورنہ شوہر پر بیوی کا کوئی حق رہتاہے ۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے اپنے ہی گھر میں کسی غیر عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتاہے تو بیوی کو استغاثہ کاحق حاصل نہیں ہے ۔اسی طرح اگر بیوی شوہر کی موجودگی میںکسی غیر مرد کے ساتھ رضامندی کے ساتھ جسمانی رشتے استوار کرتی ہے تو شوہر بیوی پر قانونی لحاظ سے کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا۔گویاگھروں میں فحاشی کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔اس طرح شادی کا تصور بھی غیر ضروری ہوگیاہے ۔مرد ہر لمحہ اپنی بیوی پر اور بیوی اپنے شوہر پر نظر نہیں رکھ سکتی ۔ازدواجی زندگی میں یقین اور اعتبار ہی رشتے کی کامیابی کی دلیل ہے ۔اب یہ اعتبار قانونی طورپر ختم کردیاگیاہے ۔شادی کا جو فطری تصورتھا اس کو غیر فطری تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایاگیا ہے ۔اس طرح ان فاحشہ عورتوں اور بے غیرت مردوں کی عید ہوگئی ہے جو اس تعلق کو آئینی حیثیت ملنے سے پہلے مخفی طورپر رشتے قائم کرتے تھے مگر اب انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے ۔اسکے بعد جسم فروشی کے دھندے کو بھی فروغ حاصل ہوگا جس پر قابو پانا اب ناممکن معلوم ہوتاہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگررضامندی کے ساتھ سیکس کو قانونی حیثیت دیدی گئی تھی تو پھریہ شرط کیوں رکھی گئی کہ شادی شدہ مردو خواتین بھی رضامندی کے ساتھ کسی دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں۔؟ہر کسی کو مرضی کے مطابق سیکس کی آزادی ملنے کے بعد اس نئے قانون کی منظوری کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ مشرقی اقدار دم توڑ چکے ہیں اور ہمارے دل و دماغ پر مغربی تہذیب و تمدن بری طرح غالب ہے ۔ اس غیر فطری تمدن کو فرد کی آزادی اور اسکے فطری حقوق کے نام پر فروغ دیاجارہاہے تاکہ کسی کو مخالفت کا جواز نہ مل سکے ۔عدلیہ سے بھی سوال پوچھا جانا چاہئے کہ اگر مرد اور عورت رضامندی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرتے ہیں ،اسکے بعد اس تعلق میں کسی کمزوری،لالچ یا کسی دوسری وجہ سے مردعورت پر یا عورت مرد پر مقدمہ قائم کرتے ہیں تو کیا عدلیہ اس جسمانی رشتے کو ’’زنا بالجبر‘‘ کے زمرے میں رکھے گی یا پہلے یہ تحقیق کرائی جائے گی کہ آیا یہ جسمانی تعلق رضامندی سے تھا یا جبراََ قائم کیا گیا تھا ۔اب عدلیہ میں ایسے مقدموں کی بھی کثرت ہوگی جن میں یہ معلوم کرنا تقریباََ ناممکن ہوگا کہ مردو عورت کے درمیان قائم ہو نے والا جسمانی تعلق رضامندی سے تھا یا ’’زنا بالجبر‘‘ کی کوشش تھی۔پولیس کے محکمہ کی تشویش ناک صورتحال اور عدلیہ کے محدود ذرائع کے باجود اس طرح کے قانون کو منظوری دینا سوچاسمجھا فیصلہ تو نہیں ہوسکتا۔
فیصلہ سنانے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری تہذیب میں عورت مرد کی تابع دار تھی غلام نہیں ۔مگر اس فطری تابعداری کو غلامی کا نام دیکر اس طرح پیش کیا گیا کہ عورت اپنے استحصال پر خود رضامند ہوگئی ۔آج عورت کو اسکی آزادی اور حقوق کے نام پر فریب دیاجارہاہے ۔اس قانون کے پیچھے بھی وہی ذہنیت کارفرما ہے جو عورت کو مصنوعی آزادی کے نام پر اپنا شہوانی غلام بنالینا چاہتی ہے ۔ہندوستان میں شادی کو سات جنموں کا بندھن کہاجاتاہے ۔عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ سونا تو دور اسکے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتی ہے ۔ہندوستانی عورت نے کبھی اپنے جسم کو غیر کے حوالے نہیں کیا ،اگر کبھی ایسا برا وقت آیا تو اس نے ’’سَتی‘ ہونے کو ترجیح دی لیکن اپنے جسم پر کسی غیر مرد کے لمس کو برداشت نہیں کیا ۔اس ہندوستان میں جسمانی تعلقات کے ایسے قانون کو منظوری دینا سمجھ سے پرے کی بات ہے ۔ہم نہیں جانتے کہ اس طرح کے فیصلہ سنانے والے جسٹس حضرات کس تہذیب کے پروردہ ہیں اور کس ماحول سے اٹھ کر عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں مگر ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہندوستان کی تہذیب کو گہرائی سے سمجھنے والا انسان ایسا فیصلہ قطعی نہیں سنا سکتا ۔یہاں بات مذہب اور فرقہ کی حدبندیوں سے پرے کی ہے ۔ہم ذات پات ،مذہب اور مسلکوں میں بٹنےسے پہلے ہندوستانی ہیں ۔ہم کسی بھی مذہب ،ذات اور مسلک سے کیوں نا جڑے ہوں مگر ہماری مشترکہ تہذیب میں ایسی فحاشی اور بے حیائی کی کبھی اجازت نہیں دی گئی ۔یہ وہ ملک ہے جہاں عورت اپنے دیور اور خسُر سے بھی گھونگھٹ کرتی ہے ۔رشتوں کا احترام اور تقدس ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ہماری عدلیہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے تاکہ بے حیائی اور فحاشی کو فرد کی آزادی کے نام پر خانگی ماحول میں فروغ حاصل نہ ہو ۔ورنہ ہمارے سماج کا اللہ ہی حافظ ہے۔