رمضان المبارک اور ہماری ذمہ داری
(منظور پروانہ)
رمضان المبارک کے مہینہ میں ہونے والی سیاسی، غیر سیاسی، سرکاری اور غیر سرکاری افطار پارٹیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ مہینہ صرف اور صرف افطار پارٹیوں کے لئے مخصوص ہے۔ دفتر ہو، کارخانہ ہو یا کوئی اور ادارہ ہر جگہ اس طرح کی افطار پارٹیوں کا انعقاد پورے اہتمام کے ساتھ کیا جانے لگا ہے۔ یہ سلسلہ تو اب اس منزل پر پہونچ چکا ہے کہ بعض اوقات یہ گمان حقیقت بننے لگتا ہے کہ جیسے اس میں بھی ایک مقابلہ آرائی ہے۔ میرے دفتر میں بھی اس طرح کی افطار پارٹی کا اہتمام ہوتا ہے۔ میں اس کے لئے مالی تعاون تو کرتا مگر کبھی اس میں شریک نہ ہوتا۔ لیکن ایک سال رمضان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ جس دن دفتر میں افطار پارٹی تھی اس دن عصر کے بعد ایک فائل میں کچھ ایسا الجھا کہ مغرب کا وقت قریب آگیا۔ میں مسجد جانے کے لئے نکلا تو چند غیر مسلم ساتھی مل گئے اور انھوں نے دفتر میں ہونے والی افطار پارٹی میں چلنے پر زور دیا۔ میں نے بھی انکار مناسب نہ سمجھا اور ان کے ساتھ چل دیا۔ لان میں کافی بھیڑ تھی۔ جس میں مسلم اور غیر مسلم سبھی تھے۔ ایک طرف کونے میں نماز کے لئے فرش لگا تھا۔ چند افراد اس پر بیٹھے تھے میں بھی بیٹھ گیا۔ قریب کی مسجد سے اللہ اکبر کی آواز کے ساتھ وہاں پر موجود افراد افطار کے سامان پر اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح فوج کے سپاہی اپنے حریف پر ٹوٹتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ بھی کوئی انعامی مقابلہ ہے تھوڑی دیر بعد جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو نماز کا اعلان ہوا۔ یقین جانئے کل سترہ افراد نماز میں شامل تھے۔ یعنی افطار پارٹی میں روزہ دار افراد کی تعداد یہی تھی اور اکثریت بے روزہ داروں کی تھی۔ غیر مسلموں سے کوئی مطلب نہیں مگرمسلمانوں کی تعداد کے حساب سے بھی روزہ داروں کی تعداد محض دس یا بارہ فیصد تھی۔ نماز کے بعدکھانے کا بھی انتظام تھا مگر میں رک نہ سکا اور فوراً چل دیا۔ راستے میں میرا ذہن برابر یہ سوچتا رہا کہ ہمارے اس عمل کا غیر مسلموں پر کیا اثر پڑے گا۔ کیا ان تک یہ پیغام نہ جائے گا کہ نہ نماز ضروری ہے اور نہ روزہ۔ جس کا جی چاہے پابندی کرے جس کا دل نہ چاہے وہ آزاد۔ جب کہ یہ دونوں رکن اسلام کے اہم رکن ہیں اور سبھی پر فرض ہیں۔ میں سوچتا رہا کیا ماہِ رمضان میں افطار پارٹیوں میں شامل ہونے یا کچھ لوگوں کے لئے افطار پارٹی کا اہتمام کر دینے سے رمضان کا حق ادا ہو جائے گا اور ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ نہیں قطعی نہیں۔ مگر دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ یہ رسم نباہی جا رہی ہے۔
آئیے ہم غور کریں کہ ماہِ رمضان کی اہمیت کیا ہے اور ہمیں اس مہینہ میں کیا اہتمام کرنا چاہئے۔ رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں وہ بیش بہا رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر خیر و برکت والی ہے۔ یہ رات وہ رات ہے جس رات میں خالق کل کائنات نے اپنی سب سے بڑی رحمت کا نزول فرمایا۔ یعنی قرآنِ حکیم کو اس برکت والی رات میں اتارا۔ جو پورے عالم کے لئے ہدایت نامہ ہے۔ اس مہینہ کا ہر دن بابرکت اور ہر شب مبارک ہے اس مہینے کی ایک ایک ساعت میں برکتوں کا وہ خزانہ ہے جسے ہم شمار بھی نہیں کر سکتے اس مہینے میں نفل عمل، فرض عمل کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرض عمل کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس ماہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینے میں آسمان اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں نیکی کی سہولت اور توفیق عام ہو جاتی ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا برائی کے مواقع کم سے کم ہو جاتے ہیں اور ایسا کیوں نہ جب کہ یہ ماہ اللہ کا مہینہ ہے۔
لیکن…….. سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آئے اور ہم کچھ نہ کریں۔ تو کیا اس ماہ کی جو برکتیں اور رحمتیں ہیں اس میں ہمارا کوئی حصہ ہوگا۔؟ جواب میں میرا آپ سے سوال ہے کہ برسات میں جب بارش ہوتی ہے تو کیا اس بارش سے پتھروں کو بھی وہی نفع حاصل ہوتا ہے جو کھیت کو ملتا ہے۔؟ کیا بارش کا پانی ایک چھوٹے گڑھے اور تالاب میں برابر بھر سکتا ہے۔؟ جواب یقینانہیں میں ہوگا۔ بالکل ایسا ہی حال رمضان کی برکتوں کا ہے یہ آپ کی استعداد پر ہے کہ آپ اس سے کتنا فیض اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے دل کی زمین میں ایمانی بیج موجود ہے اور آپ کے دل کی زمین نرم ہے آپ ایک مستعد کسان کی طرح اپنے ایمانی بیج کی حفاظت کے لئے برابر عمل جاری رکھے ہیں تو رمضان کی ان رحمتوں کی بارش سے وہ فصل تیار ہوگی جس کا انعام اللہ کی رضا ہے اور آخرت میں ٹھکانہ جنت ہے۔ اللہ کے نیک بندے جن کو رمضان کے مہینے کی سعادت نصیب ہوتی ہے وہ دن میں اپنے مالک کی اطاعت اور رضا جوئی کے لئے اپنے جسم کی جائز خواہشات اور جائز مطالبات کو ترک کر دیتے ہیں اور اپنے اس عمل سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ صرف اللہ ہی انکا رب ہے۔ اس کی اطاعت اور بندگی ہی اصل زندگی ہے۔ رات آتی ہے تو یہ بندہ اللہ کے حضور خصوصی قیام کر اس سے کلام کرتا ہے یعنی ذکر الٰہی سے اپنے دلوں کو منور کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم ماہِ رمضان کا استقبال کس طرح کریں تاکہ تمام برکتوں میں ہمارا حصہ ہو اور ہمیں نجات مل سکے۔ اس سلسلے میں سب سے ضروری چیز نیت ہے۔ کیونکہ ہر عمل کا حاصل نیت پر ہے۔ نیت سے شعور و احساس جاگتا ہے۔ اور اس بیداری سے ارادہ پیدا ہوتا ہے پھر ارادہ محنت اور کوشش کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں سب سے پہلے نیت کے ذریعہ یہ شعور پیدا کرنا چاہئے کہ ماہِ رمضان کو پانے پر شکرِ خدا وندی ادا کریں اور پھر اس کا حق اد اکرنے کے لئے کمر کس لیں۔
رمضان المبارک کا قرآن سے بہت زیادہ تعلق ہے لہٰذا اس ماہ میں خصوصیت سے قرآن کی تلاوت کرنا چاہئے۔ صرف یہ نہیں کہ تراویح میں قرآن کا ایک دور مکمل کر لیا بس ختم۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنا اور اس کے معنی و مطالب کو سمجھ کر اس میں فکر کرنا چاہئے تاکہ یہ معلوم ہو سکے جو کلام ہم پڑھ رہے ہیں اس میں ہمارے لئے کیا ہدایتیں ہیں اور پھر اس پر عمل کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کل عام طور پر لوگ چند دنوں میں قرآن کا دور مکمل کر لینے کے بعد تراویح تو کجاعشاء کی نماز تک بھول جاتے ہیں۔ یعنی سنت اور نوافل کے اہتمام کے بجائے فرض بھی ترک کر دیتے ہیں۔
روزہ کا حاصل تقویٰ ہے تقوے کے معنی ہیں ہر اس کام کو کرنے کی رغبت جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس کام سے بچنے کی کوشش جس کواللہ نے منع فرمایا ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنا۔ رمضان کا مہینہ تقوے کی افزائش کا مہینہ ہے۔ اس لئے اس ماہ میں اللہ کی نافرمائی سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنی چاہئے۔ روزہ صرف پیٹ کا نہیں۔ یعنی صرف کھانا پانی ترک کر دینا ہی روزہ نہیں بلکہ روزہ تو پورے بدن کا ہوتا ہے۔ یعنی آنکھ، کان، ہاتھ، پیر، زبان سب کا۔ اعضاء کے روزے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ کام نہ انجام دئے جائیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ کوشش کرنا چاہئے کہ ہمارا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سب اللہ کے حکم مطابق ہوجائے۔ نیکی کی یہ جستجو عبادات سے لیکر انسانی تعلقات اور رسم و رواج تک ہونی چاہئے۔ عباد ت میں فرائض کے علاوہ نوافل کا اہتمام کرنا چاہئے۔ خاص طور پر تہجد کی نماز کا اہتمام کیا جائے۔ اپنی پیشانی کو اپنے رب کے حضور رکھ کر اور روکر گڑگڑاکر توبہ استغفار کریں۔ راہِ حق پر چلنے کی توفیق طلب کریں۔ پہلے عشرے میں رحمت کی طلب کریں، دوسرے عشرے میں مغفرت کی طلب کریں اور تیسرے عشرے میں خصوصیت سے نارِ جہنم سے خلاصی کی دعا کریں۔
دنیا میں انسان کو جان کے بعد سب سے زیادہ مال عزیز ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ مال جان سے زیادہ عزیز بن جاتا ہے۔ اسی لئے اللہ کی راہ میں مال کا خرچ کرنا ایک بڑی عبادت ہے۔ اللہ کے نیک بندے اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اللہ نے جو مال ہم کو دیا ہے وہ صرف ہمارا نہیں ہے اس میں دوسروں کا بھی حق ہے اور وہ اپنے مال سے اپنے جیسے انسانوں، اپنے بھائیوں، بہنوں کے ساتھ غم گساری کرتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا مال مریضوں کے علاج، بھوکوں کو کھانا کھلانے، محتاجوں کی حاجت روائی میں خرچ کریں۔ اپنے مال سے اہل و عیال، اقربا، دینی بھائی، پڑوسی اور عام انسانوں کی مدد کریں۔ زکوٰۃ و فطرہ تو صاحب نصاب پر فرض ہے اس کو تو ادا کریں ہی، ساتھ ہی ساتھ صدقات و عطیات کے ذریعہ بھی بھلائی کے کام کریں۔ کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس ماہ میں چونکہ ثواب بڑھ جاتا ہے لہٰذا اس ماہ میں زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔
رمضان کے مہینہ کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات وہ رات ہے جسے ہزاروں مہینوں سے زیادہ برکت والی رات بتایا گیا ہے ہمیں چاہئے کہ اس کو تلاش کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کی شان اور تاثیر بھی جدا ہے۔ ہو سکے تو آخری عشرہ میں اعتکاف کریں ہر شخص دس دن کا اعتکاف نہیں کر سکتا مگر وہ اتنا تو کر ہی سکتا ہے کہ جب مسجد میں جائے تو اعتکاف کی نیت کر لے تا کہ جتنی دیر وہ مسجد میں رہے اعتکاف کا ثواب ملے۔
آئیے۔ ہم اپنی پچھلی کوتاہیوں کے لئے اس ماہِ مبارک میں اپنے رب کے حضور صدق دل سے توبہ کریں اور یہ نیت کریں کہ اس ماہِ مبارک میں ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی جوٹریننگ لے گیں اسے پورے سال اپنی عملی زندگی میں قائم و دائم رکھیں گے۔ آمین
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018
موبائل:9452482159