لکھنؤ نے اردوکی ادبی فضا کو منتشر ہونے سے محفوظ کیا:سبط رضی
ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈکمیٹی وآل انڈیا کلچرل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مشاعرہ واعزازی تقریب کا انعقاد
لکھنؤ۲۳جون، اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہل لکھنؤکی خدمات اردو زبان وادب کے آسمان کاایک درخشاں ستارہ ہے۔اس نے خود بھی عروج حاصل کیا اور یہاں کی مٹی کی سرشت میں اوج بخشنا ہے۔ اردومرثیہ دکن میں ابتدائی شکل میں ملتا ہے اور دہلی میں بگڑا شاعر مرثیہ گو کی حیثیت اختیار کرتا ہے ۔یہ لکھنؤی اساتذہ کا کمال ہے کہ انہوں نے مرثیہ کو ایک عقیدے سے زیادہ ادب بنا دیا اور انیس وؔ دبیرؔ نے ا س کو ایسا اوج بخشا کہ اس سے آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود ہو گئے۔یہی بات ریختی کیلئے بھی کہی جا سکتی ہے۔یہ صنف بھی یہیں پروان چڑھی ۔ مذکورہ خیالات کا اظہارمہمان خصوصی سابق گورنرسبط رضی نیہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی وآل انڈیا کلچرل ایسوسی ایشن(کویت) کے زیر اہتمام مشترکہ طور پرمنعقدمشاعرہ و اعزازی تقریب میں کیا۔گورنر سبط رضی نے مشاعروں کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مشاعروں کے ذریعہ سے سماج کی اصلاح ا ورادیبوں وشاعروں کی اصلاح کی تحریر وشاعری کی اصلاح کا کام لیا جاتا تھا۔اودھ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ برہان الملک سے لے کر واجد علی شاہ تک سبھی حکمراں، نہ صرف ادب نواز بلکہ خود بھی پائے کے تخلیق کار تھے۔ شجاع الدولہ ادب اور ادیب نواز تھے۔
صدارتی تقریر میں مشہور ادیب ونقادگوپی چند نارنگ نے کہااردو زبان کا جنم ہندوستان میں ہوا ہے۔اور یہ گنگا جمنی تہذیب کی علم بردار ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے دلوں کی آواز ہے۔اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنا قطعی مناسب نہیں کیوں کہ اس کی ترقی و ترویج میں غیر مسلم حضرات کی اتنی ہی کاوشیں رہی ہیں جتنی مسلمانوں کی ۔بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو تخلیق کاروں کے یہاں تو خالص ہندوستانی رنگ ہے وہ کسی دوسرے ادب کی پیروی نہیں کرتے جب کہ ہمارے ابتدائی مسلم شاعر و ادیب فارسی و عربی شاعری سے متاثر ہو کر ادب تخلیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اردو زبان جس آب و تاب سے پروان چڑھ رہی ہے وہ کئی تہذیبوںاور رسم و رواج کے مظہر کا ثبوت ہے ۔میں اردو زبان کی طرف سے مایوس نہیں مجھے یقین ہے یہ ہندوستانی زبان رہتی دنیا تک اپنے وجود کا لوہا منواتی رہے گی۔
اس موقع پرمہمانان ذی وقارراجندر چودھری سابق ریاستی وزیر،ڈاکٹر مسعوداحمدسابق ریاستی وزیر،اروند سنگھ گوپ سابق ریاستی وزیر،آصفہ زمانی،چیئرپن اترپردیش اردو اکیڈمی،دائوجی گپتاسابق میئرلکھنؤ، راجہ محمودآباد امیرمحمد خان، امیر حیدرسینئر کانگریسی لیڈر،ضیاء اللہ صدیقی ندویؔ،پروفیسر شارب ردولوی،پروفیسرانیس انصاری، انور رضوی اورپروفیسر رمیش دکشت وغیرہ نے بھی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اردو والوں کو چاہئے کہ اردو کی بقا اور اس کی ترویج کے لئے عمل انجام دیتے رہیں ۔خاص طور سے میں نئی نسلوں سے کہنا چاہوں گا کہ چاہے ان کا مذہب کچھ ہو ان کا سبجیکٹ کوئی ہو یا ان کا میدانِ عمل کوئی ہو لیکن اردو کو فراموش نہ کریں کیونکہ اردو زبان خالص ہندوستانی زبان ہے یہ باہر سے نہیں آئی بلکہ اس کا رشتہ سنسکرت سے جا کر ملتا ہے۔اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ہر مذہب ہر فکر اورہر مکتب کے خیالات کو آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔اس کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ دل میں اتر کر اپنا جادو بکھیرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مزاج کے لوگ اپنے اپنے ذوق و شوق کے اعتبار سے شعر یاد رکھتے ہیںاور انھیں بر وقت استعمال کرتے ہیں۔
مشاعرہ واعزازی تقریب میں ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے جنرل اطہر نبی ایڈوکیٹ نے آئے مہمانان کا استقبال کیا اور اپنے افتتاحی کلمات میں سوسائٹی کے ذریعے ماضی میںکئے گئے کارہائے نمایاں بتائے اور سوسائٹی کے اغراض ومقاصد پر بھی مختصراً روشنی ڈالی اور اس اعزازی تقریب میں نوازے گئے ڈاکٹر ہری اوم گوتم اور عامرصدیقی کو مبارکباد بھی پیش کی۔اورآخر میں اعزازی تقریب کے شرکاء اورمہمان کا شکریہ اداکرتے ہوئے کنوینر پروگرام معراج نے کہا کہ اتنے بڑے پروگرام کو کامیاب کرنے میں آپ سبھی حضرات کا مکمل تعاون حاصل رہا ورنہ میرے لئے ایسا کرپانا ناممکن ہوجاتا اس کے لئے ہم آپ سبھی حضرات کے ممنون ومشکور ہیں۔ اس موقع پر ہندی اور اور اردو کی دو عظیم شخصیات ڈاکٹر ہری اوم گوتم اور عامرصدیقی کو ان کی ادبی اورسماجی خدمات کیلئے گورنر سبط رضی ودیگر مہمانان کے بدست ایوارڈواعزاز اور توصیفی سند سے نوازاگیا۔پروگرام کی نظامت پروفیسر صابرہ حبیب نے اپنے مخصوص انداز میں فرمائی۔اس کے بعد ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی نظامت مشہور شاعرواصف فاروقی نے فرمائی۔اس پروگرام میں مہمانان کے بدست ایک سی ڈی ’’ عالمی مشاعرہ2017کویت کا‘‘اجرابھی کیاگیا۔
عالمی مشاعرے کے پسندیدہ اشعار کچے اس طرح سے ہیں:-
غم کی گرد ہٹا کرپھر چہرے کو سجانا پڑتا ہے
ہم زندہ ہیں لوگوں کو یہ یاد دلانا پڑتا ہے
جب اجداد کی لاپرواہی بوڑی حویلی بکوادے
آنے والی نسلوںکو پھر قرض چکانا پڑتاہے
خودداری بھی سمجھوتے کی بولی بولنے لگتی ہے
مجبوری میں دشمن سے بھی ہاتھ ملانا پڑتا ہے
نسیم نکہت
سرد پڑ جائے خون پانی نہ ہو
میری تہذیب زعفرانی نہ ہو
انگلیاں آپ کی لہو میرا
کیسے تحریر جاودانی نہ ہو
ڈاکٹرطارق قمر
پوتے نے دادا کی فوٹو یہ کہہ کر باہر رکھ دی
میر البم نیا نیا ہے یہ تصویر پرانی ہے
خورشید حیدر
شاہد میرے جنون کا سحرا ابھی بھی ہے
شرمندہ میری پیاس سے دریا ابھی بھی ہے
قبضہ کسی کا پانی پہ جاری نہ رہ سکا
لیکن ہمارا پیاس پہ قبضہ ابھی بھی ہے
عثمان مینائی
ہندی تلسی کی شکتی ہے،سورانورکتی ہے میرا کی بھکتی مہان ہے ہندی
میر۔کبیر۔ نظیر۔ کی دولت بھاوں کی رسخان ہے ہندی
نرمل درشن
تم تو ہوا کے کندھے سے اتری ہی نہیں
پھر یہ سر مغرور زمیں پر کس کا ہے
سر بچائے گا تو دستار چلی جائے گی
یار دستار بچانا ہے تو سر جانے دے
چرن سنگھ بشر
سفر میں رہ کے مسافر تو ہونا پڑتا ہے
کبھی ٹرین،کبھی بس پر سونا پڑتا ہے
اسی بہانے کوئی دیکھنے کو آجائے
سوآئے دن مجھے بیمار ہونا پڑتا ہے
حسیب سوز
گمان ووہم سے نکلو یقین تک آ
اب آسماں سے اترکرزمیں تک آ
اگر چھپائے ہوخنجر تو پیٹھ حاضر ہے
اگرہوںسانپ تو پھر آستین تک آ
واصف فاروقی
سب میرے چاہنے والے ہیں میراکوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں
خوبصورت ہیںا ٓنکھیں تیری رات کو جاگنا چھوڑدے
خود بہ خودنیند آجائے گی تو مجھے سوچنا چھوڑ دے
حسن کاظمی
تیری یادوں کااب کیاتذکرہ ہو میںاپنے میں خود نہیں ہوں
تیری یادو ں کو کہاں دفن کروں سینہ ہے کشادہ جاناں
ذرا بانہوں کے حلقے اور کس لو
محت سانس لینا چاہتی ہے
محشرآفریدی