شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے عمل داری والے دو ساحلی شہروں میں پے در پے بم دھماکوں میں ایک سو پینتالیس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔سخت گیر جنگجو گروپ داعش نے ان بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق اسد حکومت کے مضبوط مرکز ساحلی صوبے اللذاقیہ کے شہروں طرطوس اور جبلہ میں داعش کے جنگجوؤں نے پانچ خودکش بم دھماکے کیے ہیں اور دو بارود سے بھری کاروں کو دھماکوں سے اڑایا ہے۔طرطوس میں اسد حکومت کے اتحادی روس نے ایک بحری اڈا بنا رکھا ہے اور جبلہ میں اس کا ایک فضائی اڈا ہے۔
رصدگاہ کا کہنا ہے کہ ان دونوں شہروں میں یکے بعد دیگرے کل سات بم دھماکوں میں ایک سو چالیس سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔شام کے سرکاری میڈیا نے ان دونوں شہروں میں بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد اٹھہتر بتائی ہے۔
رصدگاہ کے سربراہ رامی عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ طرطوس اور جبلہ میں شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران پہلے اس طرح کے بم حملے نہیں ہوئے ہیں۔جبلہ میں ایک اسپتال اور ایک بس اسٹیشن کے نزدیک بم دھماکے کیے گئے ہیں اور طرطوس میں بھی ایک بس اسٹیشن کو بم حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
صوبہ اللذاقیہ شامی صدر بشارالاسد کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے اور ان کا آبائی گاؤں قردہ جبلہ سے پچیس کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔اس صوبے میں شامی صدر کے ہم فرقہ علویوں کی اکثریت آباد ہے۔
داعش نے اپنی نیوز ایجنسی اعماق کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں ان دونوں شہروں میں بم حملوں کی ذمے داری قبول کر لی ہے اور کہا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے علویوں کے اجتماعات کو نشانہ بنایا ہے۔
شامی وزیر اطلاعات عمران الزعبی نے اخباریہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد میدان جنگ میں لڑنے کے بجائے اب شہریوں پر بم حملے کررہے ہیں۔انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خلاف لڑائی جاری رکھی جائے گی۔واضح رہے کہ دمشق حکومت سرکاری فوج سے برسرپیکار تمام باغی گروپوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے اور اس کے اتحادی ممالک روس اور ایران بھی ان گروپوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔