شامی تنازعے کے حل کے لیے پلان بی کا وقت آ گیا: عادل الجبیر
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ اگر شامی صدر بشارالاسد ملک میں جنگ بندی کے لیے کوششوں کی پاسداری نہیں کرتے تو پھر ہمیں تنازعے کے حل کے لیے متبادلات کا جائزہ لینا ہوگا۔
عادل الجبیر نے ویانا میں شام سے متعلق بیس ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ''ہمیں بہت عرصہ پہلے پلان بی پر غور کر لینا چاہیے تھا''۔
انھوں نے کہا کہ ''ایک متبادل پلان سے رجوع کرنے اور حزب اختلاف کے لیے فوجی امداد میں اضافے کا انتخاب اب بشار رجیم کے ہاتھ میں ہے۔اگر وہ عالمی برادری کے معاہدوں پر ردعمل ظاہر نہیں کرتے تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا کیا جاسکتا ہے''۔
قبل ازیں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے وزرائے خارجہ اور سینیر عہدے داروں کا ویانا میں اجلاس ہوا ہے اور اس میں شام میں جاری خونریزی کے خاتمے کے لیے کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
اجلاس کے شرکاء نے شام میں ایک جامع جنگ بندی کے لیے کوششوں سے اتفاق کیا ہے۔شام میں اس وقت مشروط جنگ بندی جاری ہے لیکن اس کے باوجود حلب اور دمشق کے نواحی علاقوں میں لڑائی ہوئی ہے اور باغیوں کے ٹھکانوں پر شامی فوج اور اس کے اتحادی روس کے لڑاکا طیارے بمباری کررہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اجلاس کے شرکاء نے شام کے بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ جانے والے علاقوں میں یکم جون تک انسانی امداد پہنچانے کی ڈیڈلائن مقرر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر زمینی راستے بند رہتے ہیں تو پھر متاثرہ افراد تک فضا سے امداد پہنچائی جائے گی اور طیاروں کے ذریعے خوراک کے پیکٹ اور دوسرا سامان گرایا جائے گا۔اس کے علاوہ اس امداد کو روکنے والے عناصر کے خلاف عالمی دباؤ میں اضافہ کیا جائے گا۔
اس موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کی جانب سے شامی حکومت کی حمایت بشارالاسد کی پشت پناہی کے زمرے میں نہیں آتی۔اس کے بجائے روس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حمایت کررہا ہے اور ہم اس جنگ کے لیے شامی فوج کے سوا کسی اور کو بہتر متبادل نہیں سمجھتے ہیں۔