ہندوستانی تہذیب کی موثر عکاسی کرنے والا شاعر:بیکل اتساہی
یومِ وفات ۳؍دسمبر کے موقع پر خصوصی
ماضی تا حال اردو شاعری میں صرف غزل ہی ایک ایسی صنف سخن ہے جسے اردو شاعری کی آبرو کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر شعراء غزل کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر نظر آتے ہیں۔ مگر جب ہم اردو شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسے شعراء کی بھی اچھی تعداد ملتی ہے جنھوں نے غزل کے ساتھ دوسری اصناف شعری میںبھی طبع آزمائی کی ہے اور اسے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ ان میں سے کچھ ایسے شاعر ہوئے جنھوںنے صرف ملکی اصنافِ شعری میں طبع آزمائی کی مگر کچھ شاعر ایسے بھی ہوئے جنھوں نے ملکی اور غیر ملکی اصناف شعری میں طبع آزمائی کر ممتاز مقام حاصل کیا۔ کلاسیکی اردو شاعری سے لے کر غیر ملکی اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شعراء کی اس صف میں ممتاز حیثیت کی حامل ایک شخصیت کا نام ہے بیکل اتساہی۔
اپنی وضع قطع کی بدولت ہزاروں کی بھیڑ میں اپنی الگ شناخت رکھنے والے اور لگ بھگ سات دہائی تک مشاعروں کے اسٹیج سے اپنی ہر دل عزیزی کا ثبوت دینے والے اور اپنے مسحور کر دینے والے ترنم سے ایک سماں باندھ دینے والے بیکل اتساہی کو صرف مشاعروں کا شاعر نہیں کہا جا سکتا ، کیونکہ انھوں نے اپنی شاعری میں زبان کی سطح پر ایک خوبصورت تجربہ بھی کیا۔ وہ تجربہ یہ کہ انھوں نے ہندی کے خوبصورت اور نرم لفظوں کو اپنی شاعری میں برتا۔
راقم السطور اپنی ملازمت کے دوران ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۷ء تک بلرامپور میں مقیم رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مجھے بیکل اتساہی سے برابر شرف ملاقات حاصل رہا اور ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔ منکسر المزاج، خلیق اور ملنسار بیکل اتساہی کس طرح عوام میں مقبول تھے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دینی، ادبی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی اجلاس اور مشاعروں کی آبرو تھے۔ ہر جگہ ان کی موجودگی ان کی مقبولیت کی دلیل تھی۔ بیکل اتساہی تمام عمر ادب کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت میں بھی مصروف رہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بیکل اتساہی کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت تھی۔
بیکل اتساہی کے والد محمد جعفر خاں کا تعلق موضع رمواپور، اترولہ ضلع گونڈہ (اب بلرامپور) کے ایک زمیندار خاندان سے تھا۔ یکم جون ۱۹۲۸ء کو محمد جعفر خاں کے گھر ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام والدین نے محمد شفیع خاں رکھا۔ محمد شفیع خاں کا بچپن بہت عیش وآرام کے ماحول میں گذرا۔فطری میلان کے زیر اثر جب محمد شفیع خاں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو وہ بیکل وارثی ہو گئے۔ بعدہ‘ یہی بیکل وارثی بیکل اتساہی کے نام سے عالمی سطح پر مشہور ہوئے۔ بیکل وارثی سے بیکل اتساہی ہونے کے سلسلے میں جوروایت بیان کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پندٹ جواہر لعل نہرو کی موجودگی میں جب بیکل وارثی نے اپنی نظم ’’کسان بھارت کا‘‘ جوشیلے انداز میں پڑھی تو پنڈت جی نے کہا یہ تو اتساہی شاعر ہے۔ تب سے ہی بیکل کے نام کے ساتھ اتساہی جڑ گیا اور وہ بیکل وارثی سے بیکل اتساہی ہوگئے۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ بیکل اتساہی کی ساری زندگی جدو جہد سے عبارت رہی ہے۔ ان کی زندگی کی جدوجہد کا اندازہ درج ذیل واقعات سے بخوبی ہوتا ہے۔
٭انگریزوں کے خلاف نظمیں لکھیں۔ جس کے لئے کئی بار جیل جانا پڑا۔
٭۱۹۴۹ء میں جب انہیںبیس ہل اور پچاس ملازمین کا چارج ملا تو وہ اس فرمان سے پریشان ہو گئے۔ لہٰذا انھوں ںے انسانیت کے جذبے کے تحت اپنی زمین کا ایک حصہ مزدوروں اور کسانوں میں تقسیم کر باقاعدہ کاغذات ان کے نام کر دئے۔ چونکہ ان کا یہ کام زمیندارانہ نظام کے خلاف تھا لہٰذا انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔
٭بیکل اتساہی نے رکشہ یونین اور مزدور یونین سے خود کو وابستہ رکھ کر تحریک کو فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
٭۱۹۵۲ء میں کانگریس کے ضلع سکریٹری بنے۔
٭۱۹۵۳ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئر مین کی تنگ نظری سے عاجز آکر استعفیٰ دے دیا ۔
٭شری دت گنج میں مڈل اسکول شروع کیا۔ ڈسٹرکٹ بورڈ سے اسے منظور کرایا اور خود معلم بنے۔
٭۱۹۵۴ء میں سوشلسٹ تحریک میں شامل ہوئے۔
٭۱۹۵۵ء میں بلرامپور میں ٹریکٹر ایجنسی کھولی۔ اسی کے ساتھ سوتنتر بھارت کمرشیل کمپنی بناکر مختلف کاروبار کئے۔ مگر بعد میں اس سے علاحدگی اختیار کر لی۔
٭۱۹۶۹ء میں جب بلرامپور میں سیلاب آیاتو بیکل اتساہی کا مکان اس کی زد میں آکر منہدم ہو گیا۔ جس میں ان کا شعر ی اثاثہ بھی تلف ہو گیا۔
بیکل اتساہی نے ۱۹۴۴ء سے مشاعروں کی دنیا میں قدم رکھا۔ جو ۱۲؍نومبر ۲۰۱۶ء تک جاری رہا۔ بیکل اتساہی نے جمعیۃ العلماء ہند کے ۳۳؍ویں اجلاس عام کے تحت عالمی نعتیہ مشاعرے میں شرکت کی اور یہ ان کا آخری مشاعرہ ثابت ہوا۔ اپنے کلام کے ذریعہ محبت سے عرفان تک کے مدراج طے کرنے والے بیکل اتساہی نے حمد، مناجات، نعت، سلام، مناقب، قصائد، مرثیے، غزلیں، دوہے، نظمیں، گیت، گیت نما، بائیکو، ماہیے اور ترائیلے وغیرہ تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔
بیکلؔ اتساہی کو ان کی ادبی خدمات، انسانیت نوازی اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے حکومت ہند نے ۱۹۷۶ء میں ’’پدم شری‘‘ سے نوازا۔ ۱۹۸۶ء میں انھیں راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا۔ اور حکومت اترپردیش نے انھیں یش بھارتی سے سرفراز کیا۔ بیکل اتساہی کے امتیازات کی یہ بھی دلیل ہے کہ ان کے فن اور شخصیت پر ایم، فل اور پی، ایچ، ڈی بھی کی گئی۔
بیکل اتساہی شخصی طور پر ایک سچے پکے مسلمان تھے اور الجامتہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ کے بانی مولانا عبد العزیز سے بیعت تھے۔ محبوب خدا حضرت محمدؐ سے محبت ان کی زندگی کا سرمایہ تھا۔ ان کی نعتیہ شاعری سرکار دوعالمؐ سے ان کی بے پناہ اور والہانہ عشق و محبت کا آئینہ ہے۔ بیکل اتساہی کی نعتیہ شاعری میں روحانی پاکیزگی اور والہانہ عشق رسولؐ کا اظہار اور محتاط وارفتگی ملتی ہے۔ جذبات کی صداقت اور احساسات کی پاکیزگی ملتی ہے۔ بیکل اتساہی نے نعتیہ شاعری میں بھی مختلف زبانوں جیسے عربی، فارسی، اردو اور اودھی کی لفظیات کا خوبصورت استعمال کر اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیا۔ مذہبی شاعری کے حوالے سے ان کے گیارہ مجموعے شائع ہوئے جن کے نام ہیں۔ نغمۂ بیکل، حسنِ مجلیٰ، تحفۂ بطحا، سرورِ جاوداں، بیانِ رحمت، جام گل، توشۂ عقبیٰ، نورِ یزداں، والنجوم اور والقمر۔
بیکلؔ اتساہی کی قومی شاعری میں ملک کے گنگا جمنی تہذیب اور اپنے ملک کی مٹی کی سوندھی سوندھی ، خوشبو ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ وطن دوستی کے جذبے سے سرشار ان کی قومی شاعری کے مجموعوں کے نام ہیں۔اپنی دھرتی چاند کا درپن، رنگ ہزاروں خوشبو ایک، مٹی، ریت، چٹان، کومل مکھڑے بیکل گیت اور نظماوت۔
جہاں تک غزل کا تعلق ہے بیکل اتساہی کی غزلیں فنی بصیرت کی آئینہ دار ہیں جس میں ان سے منفرد و مخصوص لہجے کی کلاسیکیت اور رومانیت کے حسین و دلکش نقش و نگار ملتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عصری حسیت کے نشیب و فراز بھی۔ کلاسیکی شاعری سے لگاؤ کی وجہ سے ان کی شاعری میں جدیدت یا جدت پسندی کا عنصر کم ملتا ہے۔ بیکل اتساہی کی غزلیات مخصوص موضوعات حسن وعشق، فلسفہ، تصوف، سیاست وغیرہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ انھوں نے حیات و کائنات کے موضوعات کا بڑے فنکارانہ طور پر ابلاع کیا ہے۔ بیکل اتساہی کی شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھوںنے ہر جگہ میانہ روی کا مزاج برقرار رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں نہ تو لفظیاتی ابہام ہے نہ ہی معنویاتی۔ غمِ جاناں ہو یا غمِ دوراں وہ اپنا توازن نہیں کھوتے اور نہ اپنے تخیل کو بے لگام چھوڑتے ہیں۔ غزل سانوری، پروائیاں۔ موتی اگے دھان کے کھیت، موسموں کی ہوائیں ان کے غزلوں کے مجموعے ہیں۔
بیکل اتساہی نے دوہے بھی لکھے۔ ان کے دوہوں میں زندگی کے کئی روپ اپنے جلوے بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے دوہے مشاہدے کی آنکھ سے ٹپکے اور تجربے کی کوکھ سے جمنے معلوم ہوتے ہیں۔’’دوہا پورم‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ ان کے دوہوں میں ہندی کے بھاری بھرکم الفاظ سے گریز ملتا ہے۔ بیکل اتساہی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے گیت کی صنف کو بام عروج تک لے جانے اور اسے مقبول عام بنانے کا کام کیا۔ نظم نما گیتوں کے ذریعہ جو کارنامہ انھوںنے انجام دیا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
بیکلؔ اتساہی نے بچوں کے لئے بھی شاعری کی۔ بچوں کے لئے ان کی ’’بچوں کی پھلواری‘‘ ایک ایسی پھلواری ہے جس میں بچوں کے ادبی مذاق کا خیال رکھا گیا ہے اور شعری انداز میں بچوں کے ذہن و دل میں زندگی کی ہر مشکل کو سرکرنے کا جذبہ ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیکل اتساہی نے اپنی شاعری کے ذریعہ دیہی مسائل اور دیہی حسن کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور اس قدر پر اثر انداز میں کہ اس خاصی طرز کی وجہ سے کچھ لوگ انہیں شاعروں کا پریم چند کہتے ہیں۔
خوش خصال، باکمال اور خوش بیان شاعر بیکل اتساہی کی شعر گوئی کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ہندی آمیز الفاظ کا کھلے دل سے استعمال کیا ہے۔ جس سے ان کی شاعری میں خاصا حسن پیدا ہو گیا۔
یادش بخیر چند ماہ پہلے مولانا محمد علی جوہر فاؤنڈیشن لکھنؤ میں بیکل اتساہی کے اعزاز میں ایک نشست کا انعقاد ہوا تھا۔ اسی پروگرام میں میری بیکل اتساہی سے ملاقات ہوئی تھی کسے علم تھا کہ یہ ان سے میری آخری ملاقات ثابت ہوگی۔
۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء کو جب بیکل اتساہی کے تارنفس ٹوٹ جانے کی خبر ملی تو بے ساختہ بیکل اتساہی کا یہ شعر یاد آگیا:
زندگی جھوٹ ہے سب حیلے بہانے کر لو
موت ایک سچ ہے کلیجے سے لگانا ہوگا
موت برحق ہے۔ ہر انسان کو دارِ فانی سے جانا ہے۔ مگر جس سے تعلق ہوتا ہے اس کے جانے کا غم زیادہ ہوتا ہے۔ اس دکھ کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس مرحلے سے گذر چکے ہیں۔
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018
موبائل:9452482159
Email : manzoorparwana7673@gmail.com