مسلمانوں کی نسل کشی استعماری طاقتوں کا عالمی ایجنڈا
شاہدؔ کمال
اسلامی نظریات کے سورج کی شعائیں جب عرب کے ریگستانوں پر پڑیں تو اس کی روشنی سے کفارو مشرکین کے فرسودہ عقائد و توہمات کے اندھیرےاور تنفس زدہ ایوانوں میںدم توڑرہی انسانیت کو پھر سے ایک بارنئی زندگی کا احسا س پیدا ہونے لگا۔بہت ہی کم عرصے میں اسلامی نظریات نے ایک ایسے انقلاب کی صورت اختیارکرلی کہ جس نے انسانی مساوات اور اپنی اخلاقی اقدار وں کی بنیاد پریونان و مصرو، روم جیسے عظیم ملک کو بھی اپنی انجذابی کیفیت سے تسخیر کر لیا، اور جیسے جیسے اسلام اپنے علمی و منطقی استدلال،اور فسلفیانہ نظریات کی اجتماعی استقامت اور اپنے ماضی کی بہترین وراثت کے ساتھ مستقبل کی طرف پیش رفت کرنے لگا ،اور اس کے جلو میں چلنے والے اور اس کے نظریات کو قبول کرنے والوں کی ایک بڑی آبادی اس کرہ ارض کے مختلف ممالک میں بڑی تیزی سے پھیلنی لگی ،تو اس انقلاب کو دیکھ کر عالم استعمار کی طاغوتی فکروں کو غش آنے لگااور انھوں نے یہ طے کیا کہ اگر اسلامی نظریات کے اس سیلاب کو نہ روکا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا پر صرف ایک امت واحد کر پرچم لہرائے گا۔لہذا اسلام کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت اور دلپذیریت کو کسی ایسی تدبیر اور حکمت عملی سےایک ایسے پروپگنڈے کا شکار بنایا جائے، جس سےساری دنیامیں اسلام کی بڑھتی ہوئی ہر دلعزیت کو ختم کیا جاسکے۔ اسلام کے ابتدائی عہد میں اسی عالمی استعمار نے اسلام کو بڑی خوبصورتی سے یرغمال بنا کر ملوکیت کی گود میں ڈال دیا۔ استعماری طاقتوں کے چشم و ابرو کی جنبش پر رقص کرنے والی ملوکیت نے اسلام کو اپنے ڈھنگ سے پیش کرنا شروع کیا ۔یعنی حقیقی اسلام کے مقابل ملوکیت نے ایک ایسے اسلام کو دنیا کے سامنے پرموٹ کیا، جس میں جہاد کے نام پر ظلم و بربریت ،سفاکیت، ظلم و جنائت کو دنیا کے سامنے اسلام کے نام سے اس طرح پیش کیا گیا جسے دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں اسلام سے متعلق بہت سے غلط فہمیاں پیداہوگئیں،اور لوگ اسلام سے دور ہونے کے ساتھ اس کے ماننے والے کو یعنی مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔
موجودہ عہد میں بھی عالمی استعمار نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی منافقانہ اور دوغلی سیاسی پالیسیوں ک تحت اپنی تخریبوں فکروں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں ۔اُ ن کی ان سازشوں سے مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ ابھی تک بے خبر ہے۔اسلام و مسلمان دشمن طاقتیں بڑی ہوشیاری اور چلاکی سے بڑےمنصوبند طریقے سےتحریکیں چلارہے ہیں۔،جس نے ساری دنیا کو غلط فہمی اور افواہوں کے ایک اَن دیکھے جال میں پھنسا رکھا ہے۔عام لوگوں کی بات تو چھوڑیئے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس اسلامی فوبیا کے شکار ہمارے سماج کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی نظر آتے ہیں۔موجودہ وقت میں اسلام کی جو صورت حال ہے ،وہ کافی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ صہیونیت کی ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں خاص کر خود کو مسلمانوں اور اسلام کا ہمدرد بتانے والےکچھ اہم ممالک پیش پیش ہیں ۔جن کے تخت و اقتدار کی ڈور انھیں عالمی استعمار کے ہاتھوں میں ہیں ،جن کی انگلیوںکے اشاروں پر وہ ہر اس عمل کو انجام دیتے ہیں جو صرف اسلام ہی نہیں بلکہ انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہیں۔اسلام میں دہشت گردی کو جنم دینے اور اس کی پرورش و کفالت کرنے والی ملوکیت اور بادشاہت ہے،چونکہ ان حکمرانوں کو اسلام سے زیادہ انھیں اپنے تخت و تاج عزیز ہیں۔اس لئے انھیں نہ تو اسلام سے کوئی مطلب ہے اور نہ مسلمانوں سے کوئی ہمدردی۔اس کی زندہ مثال برما میں روہنگیہ مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔جس کا تذکرہ ابھی میں آگے چل کر تفصیل سے کرونگا ۔اس سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ برما میں مسلمانوں پر ہونے والے اس طرح کے ظلم و ستم کا اصل مجرم کون ہے اس کے چہرے پر پڑی ہوئی اسلام کی نقاب کو اٹھانا چاہتا ہوں تاکہ دنیا انھیں پہچان لے کی ان کی اصل حقیقت کیا ہے۔
اس کو سمجھنے کے لئے آپ کو تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب نائن الیون کا واقعہ امریکہ میں رونما ہوا ، اور اس میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ،تو اس واقعہ کو براہ راست اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر پوری دنیا میں ایک ہنگامہ مچایا گیا اور اس ـ‘‘نائن الیون ‘‘ کے نام پر نہ جانے کتنے مسلمانوں کو بے گھر کردیا گیا اور نہ جانے کتنے افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔درحقیقت اس واقعہ کا اصل مجرم امریکہ ہے ۔ جس نے سعودیہ عربیہ سے ملک کر یہ وحشت ناک کارنامہ انجام دیا۔ جس سے پوری دنیا میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔یہ بات اپنے اندر وثوق رکھتی ہے کہ امریکہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ’’القاعدہ‘‘ جیسی دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کی کفالت کرنے والا ملک سعودیہ ہے۔اس کے بعد بھی امریکہ نے ’’القاعدہ‘‘ کی فنڈنگ کے سلسلے میں سعودیہ کی مخالفت نہیں کی،یہ بات کھل کرسامنے اس لئے آگئی چونکہ واشنگٹن مانیٹر نگ ڈیسک کے اطلاع کے مطابق نائن الیون کے حملے میں ہلاک ہونے والے ایک امریکی شخص کی اہلیہ نے امریکہ عدالت میں ایک مقدمہ فائل کیا۔ جس میں اس نے مطالبہ کیا ،کہ میرے شوہر کے قتل کا سعودیہ عرب ذمہ دار ہے۔لہذا آج 16 سال گز رجانے کے بعد امریکہ کی بائیں بازو کی حکومت کے تعاون سے ’’اسٹمیفنی‘‘ نے سعودیہ حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے۔اس مقدمہ کی درخواست میں یہ بات بڑے واضح لفظوں میں لکھی گئی ہے کہ ’’نائن الیون‘‘ کی منصوبہ بندی میں سعودی عرب ایک دہائی کے عرصے سے ’’القاعدہ‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیم کو ہر طرح کی مالی اور لاجیسٹک سپورٹ کرتا رہا ہے۔جس کی مدد کے بغیر القاعدہ اتنی بڑی دہشت گردانہ عمل کو انجام نہیں دے سکتا تھا،اور نائن الیون کے حملے میں شامل دہشت گردوں میں سے کچھ دہشت گرد سعودیہ عرب کے رہنے والے بھی شامل تھے۔
یہی صورت حال مشرق اوسطی میں برپا ہونے والی جنگ میں بھی عالمی استعمار نے سعودیہ حکومت کا خوب جم کر استعمال کیا ، اور دہشت گری کے ذریعہ بے گناہ مسلمانوں کو خاک و خون میں غرق کردیا اور ان کے آباد گھروں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا۔ آج تک سیریا اور اعراق ان ممالک کے ذریعہ برپا کی جانے والے دہشت گردی سے جوجھ رہے ہیں۔ابھی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا تھا کہ ،دنیا میں خود کو امن پسند کہنے والے ’’بدہشٹوں ‘‘ نے برما میں حکومت کی مدد سے وہاں پر صدیوں سے رہ رہے، مسلمانوں کےخلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ جس میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مہاجروں کے طرح دوسرے ممالک کی سرحدوںپر پناہ گزین ہیں۔ اس لئے کہ ان کے ہرے بھرے کھیت کھلیان اور گھروں کو بودھ دہشتوں گردوں نے جلادئے اور ظلم و بربریت کیسا ایسا تانڈو مچایا کہ آج پوری دنیا ان کے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے کام کرنے والے اداروں نے بھی برما میں روہینگیا مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانے والے بودھ دہشت گروں کے خلاف کھل کر احتجاج کیا اور بعض ممالک نے ان مظلوم و مجبور لوگوں کی روز مرہ کی چیزوں کے لئے رسد رسانی کا بھی کام شروع کردیا ہے۔
لیکن اس سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کی نوبل انعام یافتہ خاتون رہنما مسلمانوں کی اس نسل کشی پر خاموش ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعہ نکل کر آنے والے خبروں سے اس بات کا انکشاف ہورہا ہے کہ اس ظلم میں وہاں کی حکومت اور فوج کے ساتھ عوام بھی شامل ہے ۔جو مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ایسی صورت میں دنیا کے سامنے خود کو دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف ہونے کا پروپگنڈا کرنے والے ممالک امریکہ ،اسرائیل ، فرانس، یورپ، اور سعودیہ عرب اور اس کے حلیف ممالک کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سارا کھیل امریکہ ، اسرائیل ،اور سعودیہ عرب کے اشارے پر انجام دیا جارہا ہے۔
پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار نے یہ بات بڑے واضح الفاظ میں کہی ہے کہ امریکہ کی جانب سے عالمی پیمانہ پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے ۔جس کا آغاز ’’نائن الیون ‘‘ کے بعد ہوا تھا۔امریکی صدر کے دورہ ریاض کو اسی ضمن میں دیکھا جارہا ہے ۔اس لئے کہ امریکہ کی یہ پرانی روش رہی ہے کہ مسلمانوں کو ہر محاذ پر کسی بھی صورت میں نام کیا جائے۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف چلائی جارہی مہم یہ بدھ مت پادری کا اصل چہرہ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کررہی ہے ۔ میانمار میں مقیم اقلیت روہنگی مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لئے اکسانے والا اصل شرپسند اور روہنگی مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کا ا ذمہ دار بدھسٹ پادری اشین ویراتھو ہے۔اس نے روہنگی مسلمانوں کے خلاف کئی ریلیوں کی صدرات کی ہے۔ اس کے انھیں نظریات کی وجہ سے آج ہزاروں مسلمانوں کو ماردیاگیا اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ’’ تم کسی سانپ کو نذر انداز اس لئے نہیں کرسکتے ۔کیونکہ وہ ایک ہے او رمسلمان بھی کچھ اس طرح ہیں‘‘اُس نے مسلمانوں کے خلاف کھل کر اپنی منافرت کا اظہار کیا اُس کی انھیں تقریریوں کی وجہ سے اُسے پچیس سال کی قید کی سزا بھی دی گئی تھی ۔لیکن اسے 2012میں رہا کردیاگیا۔اُس کی اسی لگائی ہوئی آگ میں آج پورا برما میں روہینگیا مسلمانوں پر کھلے عام قتل و غارت گری اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔لیکن ان مسلمانوں کی حالت زار پر کوئی آواز تک اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے ، بلکہ اقوام متحدہ بھی اس ظلم کے خلاف اپنا سکوت توڑنے کے لئے تیار نہیںہے۔اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ،کہ اس کے پیچھے وہی استعماری طاقتیں کام کرہیں ۔جو سیریا اور اعراق میں کھل کر رہی تھیں۔ اس نازک حالات میں تمام مسلمانوں کی یہ اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے کہ وہ مسلکی منافرت کو چھوڑ کر آپسی اتحاد کا مظاہر ہ کریں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں ۔کہ جس میں ملک میں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں ،ان کے ساتھ بھی ایک دن ایسا ہی ہونے والا ہے ۔جیسا کہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔میں اپنے ایک مسدس کے اس بند پر اپنی بات کا اختتام کرنا چاہتا ہوں۔
مکین کعبہ دل ہوگئے حسد کے صنم
بلند ہونے لگے ہیں بغاوتوں کے علم
مورخین حقائق کے بک چکے ہیں قلم
صدائے حق ہے گلوگیر گھٹ رہا ہے دم
یزید وقت ہے آمادہ ظلم ڈھانے کو
حسین تیری ضرورت ہے پھر زمانے کو