مولانا سید احمد ومیض ندوی

بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ، 22/اگست /2017 کو سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کی منسوخی کا اپنا وہ فیصلہ سنا دیا جسے سنگھ پریوار کے حلقوں میں تاریخی فیصلہ قراردیا جارہا ہے ، فیصلہ کیا آیا ،دین بیزار ،ماڈرن مسلم حلقوں اور آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں میں خوشی کی لہر دوڑگئی ، اور ملک کے گودی میڈیا کی بانچھیں کھل گئیں ، مختلف ٹی وی چینلوں نے دیگر سارے ضروری مسائل سے دامن جھاڑ کر عدالتی فیصلہ کے کوریج کی خاطر خود کو مکمل فارغ کردیا ، ملک کے الکٹرانک میڈیا کے لئے گودی یا بکاو میڈیا کی اصطلاح ہلکی محسوس ہوتی ہے ، چند ایک ٹی وی چینلوں کو چھوڑ کر سارا الکٹرانک میڈیا اس وقت سنگھی طاقتوں کا زرخرید غلام بن چکا ہے ، وہ ہرلمحہ ان کے اشارہ ابرو کا منتظر رہتا ہے ،طلاق ثلاثہ کے فیصلہ پر بی جے پی کے نمک خوار چینلوں نے جس طرح کی سرخیاں لگائیں ،اس سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ملک میں پہلی مرتبہ مظلوم مسلم خواتین کو انصاف ملنے کی راہ ہموار ہوئی ہے ، گویا اسلام اب تک مسلم خواتین کو قید وبند کی زنجیر وں میں جکڑے ہوئے تھا ،اب انھیں آزادی مل رہی ہے ، ٹی وی چینلوں کی کچھ سرخیاں ملاحظہ ہوں:

کسی چینل نے سرخی لگائی مسلم عورتوں کو آج ملا حق

کسی نے عنوان بنایاآج کا دن مسلم عورتوں کے لئے تاریخی دن ،ملک تو 1947 کو آزاد ہوا مگر مسلم عورتوں کو آج آزادی ملی

ایک چینل کی سرخی تھی ملاوں کے منہ پر لگا تالامولویوں کے چہرے ہوئے اداس اب نہیں ہوگا مسلم عورت پر ظلم مسلم عورتیں ہوئیں بااختیار

اس قسم کے جملوں سے ان چینلوں کی اسلام اور مسلم دشمنی عیاں ہوتی ہے ، میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ، حق گوئی وبے باکی، غیر جانبداری اور سماج میں پنپنے والی بیماریوں کی صحیح ترجمانی میڈیا کا فرض منصبی ہے ، لیکن جس دور میں صحافت بکاو مال بن جائے اور پیسوں کے بل بوتے پر قلم خریدے جانے لگیں اس دور میں اصول کی پاسداری کی بات کرنا ہی فضول ہے ۔

ملکی میڈیا کی بے حسی تو دیکھئے کہ اس وقت ملک کے کئی صوبوں بہار ،یوپی، مغربی بنگال میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے ،لاکھوں لوگ گھر بار سامان واسباب سے محروم ہوکر زیر آسماں پڑے ہوئے ، دانے دانے کو ترس رہے ہیں ، سینکڑوں لوگ پانی میں بہہ کر موت کی گھاٹ اترچکے ہیں ،گورکھپور کے سرکاری ہسپتال میں حکومت کی مجرمانہ غفلت کے سبب آکسیجن کی کمی سے 60سے زائد معصوم بچے دم توڑ چکے ہیں ، مظفر نگر کے بدترین ٹرین حادثہ نے درجنوں مسافروں کو موت کی نیند سلادیا ہے ، آئے دن کسان خودکشی کررہے ہیں ، مہنگائی کی مارنے شہریوں کی کمرتوڑدی ہے ، ان کے علاوہ بے شمار مسائل میں ملک گھرا ہوا ہے لیکن میڈیا کو ان سے کوئی سروکار نہیں وہ ایک غیر ضروری بحث پر اپنی ساری توانائیاں صرف کررہا ہے ۔

عدالتی فیصلہ کی نوعیت:اتراکھنڈ سے تعلق رکھنے والی مسلم خاتون سائرہ بانو نے سالِ گذشتہ تین طلاق ، تعددازواج اور حلالہ کے قانونی جواز سے متعلق سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس کے ساتھ سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ پر بحث شروع ہوئی تھی ، حکومت اور زرخرید میڈیا کی غیرمعمولی دلچسپی نے اس مسئلہ کو کافی طول دیا تھا ، مہینوں تک بحث کا سلسلہ جاری رکھنے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے 22/ اگست کو اپنا فیصلہ سنادیا فیصلہ خلاف توقع نہیں تھا ، فیصلہ سے قبل اس کے لئے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں میں انتشار پیدا کیا گیا اور بابری مسجدسے متعلق مسلم پرسنل لابورڈ کے ایک اہم سربراہ مولانا کلب صادق کا متنازعہ بیان سامنے لایا گیا جس میں انہوں نے بابری مسجد کے مقدمہ میں کامیابی کے بعد بھی زمین کا حصہ ہندووں کے حوالہ کرنے کی تجویز پیش کی تھی ، اس قسم کے بیانات کا مقصد جہاں ایک طرف مسلم پرسنل لابورڈ کی طاقت کو کمزور کرنا تھا وہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے لئے مسلمانوں کو ذہنی طورپر تیار کرنا تھا ،بہرحال سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ کے تین ارکان نے ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر آئینی اور غیرموثر قراردیتے ہوئے اس پر چھ ماہ کے لئے پابندی لگادی ہے جبکہ دوججوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا ہے ، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ تین طلاق طلاق بدعت ہے اور اسلام کا اندرونی حصہ نہیں ہے یہ صرف ایک روایت ہے اس کو آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق دفعہ 25 کے تحت تحفظ حاصل نہیں ہے ، لہذا اسے ختم کرنا چاہئے ، عدالت عظمی نے طلاقِ ثلاثہ کو خواتین کے حق مساوات سے متصادم قراردیتے ہوئے اس پر چھ ماہ کے لئے امتناع عائد کردیا ہے اور حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے لئے اندرون چھ ماہ قانون سازی کرے، اگر حکومت مذکورہ مدت میں قانون سازی میں ناکام رہتی ہے تو پھر عدالت کی جانب سے جاری کئی گئی پابندی چھ ماہ بعد بھی برقرار رہیگی ، پانچ رکنی آئینی بنچ کے دوارکان جسٹس آرنریمان اور جسٹس یویوللت نے یہ نتیجہ نکالا کہ تین طلاق اب قانون کا حصہ ہے اس لئے اس کو بنیادی حقوق کی آئین میں ہونا چاہئے اس کو مذہب کی آزادی کے حق سے مربوط نہیں کیا جاسکتا ، مذکورہ ججوں نے طلاق ثلاثہ کو اسلامی قانون کا حصہ ماننے کے بجائے اسے روایت کے درجہ میں رکھا ہے ، ان کاکہنا ہے کہ تین طلاق اگرچہ فقہ حنفی کے تحت درست ہے لیکن اس میں بھی اسے گناہ قراردیا گیا ہے اس لئے تین طلاق کو دفعہ 25کا حصہ قرارنہیں دیا جاسکتا ، اس کے برخلاف دیگر دوججس جسٹس کھیراورجسٹس عبدالنظیر جس نتیجہ پر پہونچے وہ اول الذکر ججوں کے برعکس ہے ، ان کے مطابق طلاق ثلاثہ کو دفعہ 25کا تحفظ حاصل ہے ، ان کا کہنا ہے کہ طلاق بدعت حنفی مسلک کے سنی مسلمانوں کے پرسنل لا کا حصہ ہے ، یہ عمل ان لوگوں میں 14سوسال سے جاری ہے اس عمل سے دستور ہند کی دفعہ 25میں فراہم کردہ گنجائش کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ اس عمل سے ان تقاضوں کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ، اس لئے یہ پرسنل لا کا حصہ ہے اور اس کی دستورکی دفعہ 25میں گنجائش ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مذہب عقیدہ کا مسئلہ ہے ، منطق کا نہیں، کسی عدالت کے لئے یہ واضح نہیں کہ وہ ایک ایسے عمل پر مساوات کا طریقہ اختیارکرے جو کسی مذہب کا حصہ ہو ،دستور میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عقائد اور مذہبی روایات پر عمل کریں ،دستور میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یہ تیقن دیا گیا ہے کہ ان کے طرز زندگی کی ضمانت ہے اور اس کو کسی طرح کا چیلنچ نہیں کیا جائے گا ۔
فیصلہ میں تضاد:طلاق ثلاثہ سے متعلق عدالتی فیصلہ میں تضاد کا پہلو واضح طور پرمحسوس ہوتا ہے ، فیصلہ میں ایک طرف عدالت پرسنل لا کو بنیادی حقوق مانتے ہوئے اس میں مداخلت اور چیلنچ سے انکار کررہی ہے دوسری طرف اس معاملہ میں حکومت کو قانون بنانے کا مشورہ دے کر اس بات کا اعتراف بھی کررہی ہے کہ حکومت کو اس سلسلہ میں مداخلت کا اختیار حاصل ہے ،ججس کی رائے میں عدم اتفاق بھی اس تضاد کا مظہر ہے ، فیصلہ کے اسی تضاد کا اثر ہے کہ خودمسلم گوشوں سے اس فیصلہ پر مختلف ردعمل سامنے آیا ، اگر ایک طرف مسلم پرسنل لا بورڈنے یہ کہہ کر اس کا استقبال کیا ہے کہ فیصلہ میں پرسنل لا کو دفعہ25کی روشنی میں تحفظ حاصل ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے تودوسری طرف جمعی علما ہند اور بعض دیگر شخصیات نے فیصلہ کو شریعت میں مداخلت قراردیا ہے ، 23/اگست/2017 جمعیۃ علما کے مرکز ی دفتر میں جمعیۃ کے صدر قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری کی زیر صدارت ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں جمعیۃ علما کا درج ذیل چار نکاتی تحریری موقف سنایا گیا:

)اس سلسلہ میں کوئی ابہام نہیں کہ سپریم کورٹ نے 3۔2کی اکثریت سے ایک مجلس کی تین طلاق کو کالعدم قراردے دیا ہے یہ فیصلہ شریعت کے خلاف اور ملتِ اسلامیہ کے لئے سخت قابل تشویش ہے۔
)سپریم کورٹ کے فیصلہ نے اگرچہ سردست واضح کردیا کہ مسلم پرسنل لا دستور کے تحت بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور اس کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بایں معنی طلاق کی دیگر شکلیں قانون ازدواج ، وراثت ودیگر موضوعات جو شریعت ایکٹ 1937کیتحت آتے ہیں محفوظ ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعدد ازواج ،حلالہ اور دیگر امور سے متعلق الگ سے غور کیا جائے گا اس سے شریعت کے دیگر امور میں مداخلت کا صاف اشارہ ملتا ہے ۔

)بریں بنا فیصلہ کے بین السطور مخفی خدشات کے حوالہ سے جمعیت علما ہندیہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ ہمارے مذہبی حقوق جن کی دستورنے ضمانت دی ہے اور جو ہمارے بنیادی حقوق کا حصہ ہے ان پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور ہماری یہ جدوجہد ہر سطح پر جاری رہیگی ۔

)جمعیت علما ہند تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ناگزیر حالات کے بغیر ہرگز طلاق کا اقدام نہ کریں کیوں کہ شریعت کی نظرمیں طلاق مبغوض ترین چیز ہے اور خاص کر ایک مجلس کی تین طلاق سے بہرحال اجتناب کریں تاکہ غیروں کو مداخلت کا موقع نہ ملے۔

عدالتی فیصلہ کے تمام پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہاخذ کرنا شاید غلط نہ ہوگاکہ یہ موقع نہ پورے طورپر خوش فہمی میں مبتلا ہونے کا ہے اور نہ ہی بالکلیہ مایوس ہونے کا ، اس فیصلہ کا جہاں منفی پہلو ہے کہ اس میں طلاق ثلاثہ کو کالعدم قراردے کر شریعت میں مداخلت کی گئی ہے وہیں اس کے مثبت پہلو بھی ہیں ، حکومت کی جانب سے مسلم پرسنل لا کے تعلق سے سپریم کورٹ کو کئی مسائل پیش کئے گئے تھے مثلا :

()کامن سول کوڈ کا نفاذ ،عدالت نے اس پر غور ہی نہیں کیا ()تعددازواج پر پابندی،عدالت اس پر بھی خاموش ہے()مسلم پرسنل لا کو غیردستور ی قراردینا ،عدالت نے اسے خارج کردیا ،حقیقت یہ ہے کہ عدالت کے اس فیصلہ سے کامن سول کوڈ کا راستہ بند ہوگیا ،مخالفین کی اصل کوشش یہ تھی کہ طلاق پر ہی پابندی لگوائی جائے چاہے ایک ہویا تین، لیکن انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی، اسی طرح عدالت نے اپنے فیصلہ میں تین طلاق پر پابندی نہیں لگائی بلکہ یکجائی تین طلاق کو ممنوع قراردیا ہے ، اسی طرح جولوگ فیصلہ کے صرف مثبت پہلو پر نظر جمائے ہوئے ہیں انھیں بھی اس لئے زیادہ خوش نہیں ہوناچاہئے کہ مسلم پرسنل لا کو قانون کی متعدد دفعات کے تحت تحفظ حاصل ہونے کے باوجود عدالت کی جانب سے مسلم پرسنل لا کے تحت آنے والے معاملات میں مداخلت ہوتی رہی ہے ،1972 کاشاہ بانو کیس بطورمثال پیش کیاجاسکتا ہے جس میں عدالت نے مطلقہ عورت کو عدت گزرنے کے بعد بھی نان ونفقہ کامستحق قراردے کر مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلہ دیا تھا، اس وقت سے لیکر اب تک ملک کی مختلف عدالتیں دستور میں دئے گئے تحفظ کی ضمانت کے باوجود خلاف شریعت فیصلے دیتی رہی ہیں ، طلاق ثلاثہ سے متعلق حالیہ فیصلہ میں ایک طرف عدالت عالیہ دفعہ 25 کے تحت مسلم پرسنل لا بورڈ کو ملے تحفظ کا اقرارکرتی ہے تودوسری طرف طلاق ثلاثہ کو یہ کہہ کرختم کرتی ہے کہ طلاق ثلاثہ مسلم پرسنل لا کا حصہ نہیں جبکہ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی یکجائی تین طلاق کو ایک قراردینے کا قائل نہیں ہے ، تین طلاق کو سب ہی فقہا نے ناپسندیدہ قراردیا ہیاور اس کے مرتکب کے لئے تعزیری سزاوں کی بھی تجویز رکھی ہے لیکن اس کے نفاذ کا کسی نے بھی انکار نہیں کیاہے ، یہ کہنا کہ حالیہ عدالتی فیصلہ کے بعد حکومت مسلم پرسنل لا کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ،چوں کہ بنیادی حقوق مطلق نہیں ہیں بلکہ عوامی مفادات کے تحفظ کی خاطر ان پر مناسب پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں، 1973میں کیشوا نند بھارتی بمقابلہ کیرالاحکومت کے معاملہ میں عدالت عظمی نیاپنے سابقہ فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنیادی حقوق میں ترمیم کی جاسکتی ہے، اس طرح کی کسی ترمیم سے دستور کے بنیادی ڈھانچہ کی خلاف ورزی ہونے کی صورت میں عدالتی نظر کے تحت پارلیمنٹ کے ہر ایوان میں دوتہائی اکثریت سے منظور آئینی ترمیم کے ذریعہ بنیادی حقوق میں اضافہ یا حذف کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح ہنگامی صورت حال نافذ ہونے کی صورت میں دفعہ 20اور 21کے علاوہ دیگر بنیادی حقوق میں سے کسی کو بھی صدرجمہوریہ کے حکم سے عارضی طورپر معطل کیا جاسکتا ہے حتی کہ ایمرجنسی کے دوران صدرجمہوریہ کے حکم سے آئینی چارہ جوئی کے حقوق کو بھی معطل کیا جاسکتا ہے ان سب پہلووں پر نظر ہونی چاہئے ۔

عدالتی فیصلہ کا مسودہ:جن علما اور دانشوروں نے 395صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلہ کا ضخیم مسودہ پڑھا اور اس کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے انہوں نے بھی تشویش کا اظہارکیا ہے اور مسودہ کے کچھ اقتباسات بھی پیش کئے ہیں، مثلا جسٹس کورین جو پانچ رکنی بینچ میں شامل ہیں اپنے فیصلہ میں لکھتے ہیں شریعت ایکٹ 1937کو مسلم پرسنل لا مانا گیا ہے لیکن اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ،یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ شریعت کیا ہے جو چیز اخلاقی طورپر اچھی ہے وہ شریعت ہے اور جوچیز بری ہے وہ شریعت نہیں ہے (276) انہی کے فیصلہ کا ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجئے دستور کا آرٹیکل 25مذہبی آزادی ضروردیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی، پبلک آرڈر ،صحت ،اخلاقیات، مساوات اور دیگر بنیادی حقوق سے متصادم نہ ہو(297)مذکورہ سطور میں واضح طورپر مسلم پرسنل لا میں از سر نو غوروفکر کی دعوت دی جارہی ہے ، آج طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اٹھا یا گیا اور اسے صنفی مساوات کے خلاف کہہ کر کالعدم قراردے دیا گیا کل اسلام کے قانون میراث کو بھی صنفی مساوات کے خلاف کہہ کر تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔

جسٹس نریمن اور جسٹس للت کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

)طلاق ثلاثہ دستور کے آرٹیکل 14میں دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ۔(354)

)شریعت ایکٹ کی دفعہ دوپر ہمیں اعتراض ہے (318)

شریعت ایکٹ کی دفعہ دوکے تحت نکاح طلاق ،خلع ،ظہار ،ایلا ،ولایت ،نفقہ وغیرہ مسائل آتے ہیں ۔

()شریعت ایکٹ (جس کو اوپر مسلم پرسنل لا ماناگیاہے)دستور کی تدوین سے پہلے کا ہے اور دستور میں یہ شق موجودہے کہ پرانے قوانین اسی صورت میں باقی رہیں گے اگر دستور میں دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف نہ ہوں ورنہ توپورے طورپر ان قوانین کو کالعدم قراردیا جائے گا ۔(321۔322)

)دستور کا آرٹیکل 25مذہبی آزادی ضروردیتا ہے لیکن اس سے مرادمذہب کے صرف وہ اجزا ہیں جوفرائض میں آتے ہوں طلاق ثلاثہ کم از کم مکروہ ہے لہذا یہ بنیادی جز کیسے ہوگی (332)

جسٹس کھیرا اور جسٹس عبدالنظیرکے فیصلہ کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :

)تعددازواج کے حکم میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں(185)

)پرسنل لا بورڈ کے وکیل کے مطابق طلاق ثلاثہ ان امور میں سے ہے جو مذہبی اعتبار سے برے اور قانونی اعتبارسے درست ہوتے ہیں ،البتہ ہندووں میں ستی دیوداسی اور تعددازواج بھی ایسے ہی تھے مگر ان کوقانون بناکر ختم کردیا گیا ، یہ یادرہے کہ یہ مسائل عدالت میں لائے بغیر قانونا کالعدم قراردئیگئے تھے (186۔187)
)یہ تسلیم ہے کہ طلاق ثلاثہ کا رواج صدیوں سے ہے لیکن اگر کوئی کام پہلے سے ہورہا ہوتو اس کو رواج بھی کہا جاسکتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مذہب بھی ہو اور رواج کو خصوصا اگر وہ گناہ ہوعدالت ختم کرسکتی ہے ،مزید برآں مدعاعلیہ (پرسنل لا بورڈ)نے تسلیم کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ کی جدید دور میں کوئی گنجائش نہیں ہے(187۔188)

پرسنل لا کے وکلا نے اپنی بحث کے دوران جن دلا ئل کو پیش کیا ہے ، ان میں کچھ احادیث کے حوالے بھی تھے لیکن ججوں کی طرف سے دئے گئے ان کے جوابات انتہائی حیرت انگیز ہیں ،مثلاتفسیر ابن کثیر کے حوالہ سے پیش کی گئی ایک حدیث کا جواب یوں دیا گیا:

ابن کثیر سلفی تھے ، اس لئے وہ حدیث معتبر نہیں ،یوسف القرضاوی کی کتاب کے حوالہ سے پیش کی گئی حدیث کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بھی اہل حدیث ہیں(197)ایک جگہ پرسنل لا کے موقف کی تائید کرنے والی حدیث کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا :احادیث قرآن کی طرح قابل اعتماد نہیں ، ان کی تدوین بہت بعد میں ہوئی ہے(192)طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں عدالت نے اس بات کوبھی بنیاد بنایا ہے کہ طلاق ثلاثہ کاذکر قرآن میں نہیں ہے اس لئے قابل عمل نہیں ۔

اوپر پیش کئے گئے اقتباسات اور فاضل ججوں کے مباحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ کوتاہی مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکلا سے بھی ہوئی ہے، بسااوقات بات پیش کرنے کے اسلوب سے بھی کافی فرق پڑتا ہے ، مثلا بورڈ کے وکلا نے اسلام میں طلاق ثلاثہ کے برے ہونے اور پھر اس کے نافذ العمل ہونے کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس سے ججوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ جو چیز گناہ ہو وہ مذہبی نہیں ہوسکتی ، یہ کہنا غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ یکجائی تین طلاق گناہ اور ناپسندیدہ تو ہے لیکن جائز ہے،اس کے بجائے اگر یہ تعبیر اختیار کی جاتی کہ بغیر کسی معقول سبب کے ایک ساتھ تین طلاقیں دینا رشتوں کو ختم کرنے والا تباہ کن اور ایک مجرمانہ عمل ہے اور اس پر روک لگانے کے لئے موثر اقدام کیاجاناچاہئے تو یہ بات مغالطہ کا سبب نہ بنتی ، پھر یہ کہ بورڈ کے وکیل کپل سبل نے طلاق کے مسئلہ کو آستھا یعنی عقیدہ کا مسئلہ قراردیا اور کہا کہ جس طرح رام جنم بھومی ہندووں کے عقیدہ کا مسئلہ ہے اسی طرح طلاق ثلاثہ مسلمانوں کے آستھاکامسئلہ ہے یہ کہہ کر گویا بورڈ کے وکیل نے رام جنم بھومی کے متعلق سنگھ کے موقف کی تائید کرڈالی یہاں عقیدہ کے بجائے شریعت کالفظ کہنازیادہ موزوں تھا۔

اب ذرا بی جے پی اور آرایس یس کے ان قائدین کی طرف آئیے جنھوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ببانگ دہل اعلان کیا کہ اس فیصلہ سے مسلم خواتین کو انصاف ملے گا اور انھیں مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے ، سب سے پہلے ان سے سوال ہے کہ کیا آپ نے اپنے دور اقتدار میں فی الواقع خواتین کو تحفظ فراہم کیا ہے ؟ کیا آج ہندوستان میں کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین محفوظ ہیں؟ کیا مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے ناپاک ارادوں کے ساتھ مسلم خواتین کو انصاف دلانے کا ڈھونگ رچانے والوں کونہیں معلوم کہ ملک میں یومیہ اوسطا 100کمسن لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں؟کیاو ہ نہیں جانتے کہ اس ملک میں 2سال کی شیرخوار کی لڑکی سے لیکر 80سال کی بوڑھی خواتین کو تک ہوس کا شکار بنالیا جاتا ہے؟ حال ہی میں ہریانہ میں ایک غریب دس سالہ لڑکی نے لڑکی کو جنم دیا اس کا چچامسلسل سات ماہ تک اس کے ساتھ منہ کالا کرتا رہا، خواتین ہی کیا ملک میں کسی بھی طبقہ کو تحفظ حاصل نہیں، صرف دارالحکومت دہلی میں ہر دن کم از کم 20بچوں کا اغوا ہوتا ہے ملک بھر میں ہر سال 40ہزار سے زائد قتل کے واقعات ہوتے ہیں ،جہیز ہراسانی کے معاملات میں ہر سال لاکھوں خواتین گرفتار ہوکر قانون سے بچ جاتی ہیں ، لاکھوں ہندوستانیوں کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی، کیا ان سب مسائل سے حکومت فراغت پاچکی ہے ؟ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار اور آرایس ایس کے جولوگ اس وقت مسلم خواتین کے لئے مساویانہ حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کیا انہوں نے خود اپنی خواتین کو انصاف دلانے کی کبھی کوشش کی ؟کیا ہندوسماج میں خواتین کے حوالہ سے سب کچھ ٹھیک ہے ؟ملک کی مختلف ریاستوں میں 35تا 40لاکھ بیوہ خواتین کس مپرسی کی زندگی گزاررہی ہیں جن کی اکثریت ہندوخواتین پر مشمل ہے ،کیا سنگھ پریوار کا یہ فرض منصبی نہیں بنتا کہ وہ ان بیواوں کی دادرسی کرے ؟ایک سروے کے مطابق ملک میں20لاکھ30 ہزار ایسی خواتین ہیں جنھیں ان کے شوہروں نے طلاق کے بغیر ہی چھوڑدیا ہے ان میں ہندوخواتین کی تعداد 20لاکھ ہے ، بے بسی کی زندگی گزارنے والی یہ لاکھوں ہندوخواتین کیا اس لائق نہیں کہ انھیں انصاف دلایاجائے ؟ خود وزیر اعظم کی بیوی بھی انہی خواتین میں شامل ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد عدالت عظمی سے درخواست کی ہے وہ انھیں اسی طرح انصاف دلائے جس طرح مسلم خواتین کو دلایا ہے ، انہوں نے کہا کہ 46سالوں سے مجھ پر ظلم ہورہا ہے ،وزیر اعظم نریندرمودی نے 18سال کی عمر میں ایک سولہ سالہ لڑکی جسودابین سے 1968میں شادی رچائی تھی اور پورے 46برس شادی کو عوام کی نظروں سے چھپائے رکھا اورخود کو کنوارا ظاہر کرتے رہے،2014میں پہلی مرتبہ انہوں نے الیکشن فارم کے خانے میں خود کو شادی شدہ ظاہر کیا اور اپنی بیوی کا نام جسودابین لکھا ، لال قلعہ کی فصیل سے گلاپھاڑ پھاڑ کر طلاق کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے اور مسلم خواتین کی مظلومیت کی دہائی دینے والے وزیر اعظم کو خوداپنی بیوی کی مظلومیت نظر نہیں آتی، حالیہ عدالتی فیصلہ پر جشن منارہے سنگھی قائدین کو سوچنا چاہئے کہ انہوں نے خوداپنی خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کیا اقدام کیا؟ گذشتہ دنوں ایک ہندو بزرگ دانشور یس ایل ہردیانے روزنامہ سیاست میں شائع اپنے مضمون میں ایک کڑوی حقیقت کا انکشاف کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوکوڈبل کا مسودہ دستورساز اسمبلی میں متعارف کروایا گیا تھا جس میں ہندوخواتین کو بااختیار بنانے بشمول طلاق کے خلاف جدوجہد کرنے کے کئی اقدامات شامل تھے ،آرایس ایس کو جیسے ہی اس بل میں درج اقدامات کا علم ہوا اس نے دیگر ہم خیال تنظیموں کے تعاون سے نہرو اور امبیڈکر کے خلاف ایک زہریلی مہم کا آغاز کیا جس کا تفصیلی تذکرہ ممتاز مورخ رام چند گوہانے اپنی تصنیف گاندھی کے بعد ہندوستان ؟؟میں کیا ہے مارچ 1949میں ایک کل ہند ودشمنی کوڈ بل کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں کہاگیا کہ دستورساز اسمبلی کو ہندووں کے پرسنل لا میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے جس کی بنیاد دھرم شاستروں پر ہے ،مخالف ہندوکوڈ بل کمیٹی نے ہندوستان بھر میں کئی ایک اجلاس کئے جہاں خودساختہ سوامیوں نے مجوزہ قانون سازی کی مذمت کی۔

حیرت ہے کہ جو طبقہ خود اپنی خواتین کو مساویانہ حقوق دلانے کا مخالف رہا ہے وہ آج مسلم خواتین کو انصاف دلانے کی بات کررہا ہے ، سنگھ پریوار برہمن سماج میں خواتین پر روارکھے گئے ظلم کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتا؟ برہمن سماج میں لڑکی جب بیوہ ہوجاتی ہے تودوسری شادی ممنوع ہونے کے سبب ایک لاچار عورت بن کر رہ جاتی ہے اسے نیوگ کے بڑے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے ، نیوگ کا مطلب یہ کہ کسی عورت کا شوہر مرجائے اور وہ بے اولاد ہوتوتین بچے ہونے تک آنجہانی شوہر کے سب سے قریبی رشتہ دار سے جسمانی تعلق قائم کرے ، ایسی ذلت کو کسی پاکیزہ عورت کا ضمیر کیوں کر قبول کرسکتا ہے ،چناں چہ بہت سی بیوہ لڑکیاں مٹھوں اور دھرم شالاوں میں پناہ لیتی ہیں ،ہندوسماج میں بیوہ عورت ملعون سمجھی جاتی ہے ،شوہر کی جائیداد میں اسے حق نہیں ملتا اسے شوہر کے گھر سے فرار اختیارکرنے پر مجبور کیا جاتا ہے پھر وہ مجبور ہوکر وطن سے دورکسی آشرم کا سہارالیتی ہے جہاں اذیتوں کا طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے ،متھرا سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ورنداون ہے جو مغربی اترپردیش کا مشہور شہر ہے جہاں چارہزار آشرم ہیں ،جن میں ہندومظلوم خواتین پناہ لی ہوئی ہیںیہاں دو وقت کی روٹی کابھی انتظام نہیں ہوتا جس کے سبب مجبور بیوہ خواتین بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ،بعض خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کیاجاتا ہے حتی کہ جوان بیوہ لڑکیوں کو مالداروں کے گھروں میں شب گزاری پر مجبور کیاجاتاہے ۔

وزیر اعظم پہلے اپنے سماج کی خبرلیں تو شاید زیادہ بہتر ہوگا۔