ہمیں عوامی تحریک چلانے کی ضرورت ہے تب ہی اردو زندہ رہے گی۔:ڈاکٹروضاحت حسین رضوی


شعبہ اردو میں ادب نما کے تحت ”سیدوضاحت حسین رضوی سے ایک ملاقات“موضوع پر آن لائن پروگرام کا انعقاد


میرٹھ یکم ستمبر/2023ء
ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی ایک مدیر ہی نہیں بلکہ اردو کے مجا ہدہیں۔ ہمیں وضاحت صاحب کی بات سن کر اور ناولٹ پر مشتمل کاموں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اردو ادب کے تعلق سے ان کی تحریک والی بات سن کر ہمیں رو حانی خوشی ہورہی ہے۔ اگر ہم نے صحیح وقت صحیح محنت کرلی ہو تی تو اردو کے لیے اتنا نہ روتے جیسا آج ہمیں محسوس ہو رہا ہے۔ ہندی اور دیگر زبانوں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ِیہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب و شاعر عارف نقوی کے جو شعبہئ اردو اور آ یوسا کے ذریعے منعقد ہفتہ واری ادب نما پروگرام میں ”سید وضاحت حسین رضوی سے ایک ملاقات“ موضوع پر اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہ نعت۔ایم سال دوم کی طالبہ فرحت اختر نے پیش کیا۔ پروگرام کی سرپرستی صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔ مہمان خصوصی کے بطور سابق ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ڈپارٹمنٹ،لکھنؤ کے ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی نے آن لائن شرکت کی۔مہمان اعزازی کے بطور جموں وکشمیر،آیوسا کے کو آرڈینیٹرڈاکٹر ریاض توحیدنے پروگرام میں شرکت کی۔ مقالہ نگار کے بطورڈاکٹر حنیف خان (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) اورڈاکٹرموسی رضا(سب ایڈیٹر روز نامہ، اودھ نامہ، لکھنؤ) شریک رہے جب کہ مقرر کی حیثیت سے لکھنؤ سے آ یوسا کی صدر ڈاکٹر ریشما پروین نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی نظامت ڈاکٹر شاداب علیم اور شکریے کی رسم ریسرچ اسکالر شہناز پروین نے انجام دی۔


صدر شعبہئ اردو اور معروف فکشن ناقد و فکشن نگار پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ آج کا دن ہمارے لیے بہت خوشی کا دن ہے۔آج ہمارے درمیان ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے اردو کی ترقی کے لیے بہت سے کا رنامے انجام دیے۔ان میں سے ایک اہم کار نامہ اردو ناولٹ ہے۔ان کے نزدیک ڈپٹی نذیر احمد کا ”ایامیٰ“ اردو کا پہلا ناولٹ ہے۔اس کے علاوہ آپ نے ماہنامہ ”نیا دور“ کے حوالے سے جوکام کیاہے اور اردو کی جو بے لوث خد مت انجام دی ہے اسے زمانہ یادرکھے گا اورآپ کی خدمات کو اردو داں طبقہ کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔ہمارے اس ادبی پرو گرام سے جڑنے کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی نے کہا کہ وضاحت حسین رضوی کی تحریر موضوع کے لحاظ سے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔موضوع کے مطابق آپ تحریر کو خوبصورتی سے انجام دیتے ہیں۔ وضا حت حسین کے مضامین اور اداریے قاری توجہ اپنی جانب مبذول کرتے ہیں۔ میں تمام مہمانوں کے ساتھ ساتھ شامل مقالہ نگاروں اور آیوسا کے تمام ذمہ داروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ڈاکٹر وضا حت حسین رضوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ جو لوگ اردو سے محبت رکھتے ہیں وہ اپنے گھروں میں بھی اپنے بچوں کو ضرور اردو پڑھائیں۔ اردو کو زندہ رکھیں اور یہ تبھی ممکن ہو پائے گا جب اسکول،کالج، یو نیورسٹیز کے تمام اساتذہ اپنے بچوں پربھی اردو کے حوالے سے خصوصی توجہ دیں اور انہیں اردو پڑھائیں تویقینی طور پراردو کافروغ ہو گا۔ انہوں نے نا ولٹ کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگوں کا کہناہے کہ ناولٹ ناول کا بچہ ہے۔یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ ناولٹ پرخوب کام ہو رہاہے۔ اسلم صاحب نے بھی ناولٹ کو آگے بڑھایا ہے۔سبھی لوگوں نے میرے ناولٹ پر کیے گئے کام کو سرا ہاہے جس کی وجہ سے مجھے حوصلہ ملا۔ناول کا پس منظر وسیع ہو تاہے کردار بھی زیادہ ہوتے ہیں مگر ناولٹ میں کسی ایک مسئلہ کو اجاگر کیا جاتاہے اور کردار بھی کم ہوتے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اردو کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں گاؤں گاؤں، محلے محلے کام کرنا ہوگا اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اردو کو فا ئدہ نہیں ہوگا۔ آج بڑے بڑے ادارے کچھ مقالہ نگاروں کو بلا لیتے ہیں اور سیمینار کرا لیتے ہیں اس سے بھی اردو کا فروغ ہونے والا نہیں۔ اس وقت ہمیں عوامی تحریک چلانے کی ضرورت ہے تب ہی اردو زندہ رہے گی۔
اس موقع پر ڈاکٹر موسی رضا اور ڈاکٹر حنیف خان نے مقالے پیش کیے جس میں دو نوں مقالہ نگاروں نے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی شخصیت،ان کا ادبی سفر اور ان کی صحافیانہ کا وش و کوشش بشمول ”نیا دور“ کے حوالے سے ان کی زریں خدمات کا جائزہ لیا۔
پرو فیسر ریشما پروین نے کہا کہ اگروضاحت حسین صاحب کسی یونیورسٹی میں ہوتے تو یقینا ہم جیسے طالب علموں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔اردو ناولٹ کی تنقید، اصول اور تحقیق کے تعلق سے ان سے جو بات ہوتی ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے کار نامے ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
پروگرام سے ڈاکٹر آصف علی،ڈاکٹر الکا وششٹھ،نور جمشید پوری،ڈاکٹر شبستاں آس محمد، محمد شمشاد، سیدہ مریم الٰہی، فیضان ظفر،نزہت اختر،فرحت اختر،ماہ عالم اور دیگر طلبہ و طالبات جڑے رہے۔