سراج الدین ندویؔ

سراج الدین ندویؔ


اسلام کے تمام مذہبی اعمال کا تعلق چاند سے ہے ۔یعنی رمضان کی ابتدا،عید ین،حج وغیرہ کی رسومات چاند کی تاریخوں کے اعتبار سے انجام دی جاتی ہیں۔اس لیے ان مہینوں کا چاند دیکھنا جن میں کوئی اہم مذہبی رسم یا عبادت انجام دی جاتی ہے فرض کفایہ ہے۔فرض کفایہ ہم جانتے ہیں جس کو اگر کوئی ایک ادا کرلے کافی ہے،اگر کسی نے بھی نہیں کیا تو سب گنہ گار ہوں گے۔رمضان چونکہ اللہ کا مہینہ ہے اور ہمارے لیے مقدس مہمان کی حیثیت سے آتا ہے اس کی بے پناہ فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں میں الگ مقام ہے ،رمضان کا چاند دیکھنے کا شوق بھی زیادہ ہوتا ہے۔اس لیے ۲۹شعبان کو چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جائے،مغرب کے فوراً بعد اوونچے مقامات یا گھر کی چھت پر جا کر چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے،مطلع اگر ابر آلود یعنی بارش والا ہوتب بھی ثواب کی نیت سے چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے۔کیوں اللہ کے نبی ﷺ اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔اگر ۲۹ کو نظر نہ آئے تو ۳۰ تاریخ کو چاند دیکھیے۔یہ سوچ کر نہ رہ جایئے کہ آج تو چاند ہوہی جائے گا۔کیوں کہ چاند دیکھنا بھی سنت ہے اور ہر سنت پر اجر ہے۔چاند نظر آجائے تو یہ دعا پڑھیے۔

اللَّہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِیمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّی وَرَبُّکَ اللَّہُ (ترمذی)
اے اللہ! اس چاند کو امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند) میرااورتیرا رب اللہ ہے۔
چاند کے تعلق سے ذیل میں چند مسائل درج کیے جارہے ہیں۔جن کو ہر مسلمان کو جاننا چاہئے۔

یہ بات یاد رکھیں کہ قمری مہینہ ۲۹ دن کا یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے ۔نہ ۲۸ دن کا اور نہ ۳۱ دن کا ،جیسا کہ انگریزی مہینہ ہوتا ہے۔اس لحاظ سے ہر مہینے کی ۲۹ تاریخ کو چاند دیکھا جائے گا ۔ اگر چاند نظر نہ آئے تو پھر اس مہینے ۳۰ دن پورے کیے جائیں گے۔

آج کل سائنسی تحقیقات کی وجہ سے بہت سی چیزیں آسان ہوگئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فطری چیزوں کو ہم چھوڑ دیں ۔سائنسی تحقیقات بدلتی رہتی ہیں۔پورے سال کا کلینڈر پہلے ہی تیار ہوجاتا ہے ۔اکثر و بیشتر وہ درست بھی ہوتا ہے ۔اس کے باوجود آنکھوں سے چاند دیکھنا ضروری ہے۔آنکھوں سے چاند دیکھے بغیر روزہ نہیں رکھا جاسکتا اور عید نہیںمنائی جاسکتی ہے۔اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔

لاتصوموا حتّی تروہُ ولاتفطروا حتّی تروہ فإن غمَّ علیکم فاقدروا لہ۔ (بخاری )

روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہوجائے تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)۔

ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

الشہر تسعٌ وعشرون لیلۃ، فلا تصوموا حتّٰی تروہ فان غُمَّ علیکم فاکملوا العدَّۃّ ثلاثین· ( بخاری )

مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کا ہے، اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو (شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔

یہ دونوں حدیثیں حدیث کی دوسری سب مستند کتابوں میں بھی موجود ہیں۔اس حدیث میں چاند کو دیکھنے کی بات کہی گئی ہے۔دیکھنا عرف عام میں نظروں اور آنکھوں سے ہوتا ہے ۔اس لیے چاند دیکھنے کی بھر پور کوشش کیجیے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہر شخص فرداً فرداً چاند دیکھے اور اس حدیث پر عمل کرے ،تو یہ ناممکن ہے۔اس لیے رمضان کا چاند اگر کوئی ایک عاقل ،بالغ دیکھ لے تو رمضان شروع ہوجائے گا۔اگر کوئی ایک عورت بھی چاند دیکھنے کی گواہی دے تو گواہی مان لی جائے گی۔البتہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں کے چاند کے لیے ضروری ہے کہ دو مرد یا ایک مرد دوعورتیں ،یا چار عورتیں گواہی دیں۔

ایک مطلع کے لیے ایک جگہ چاند دیکھ لینا کافی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا وہ علاقہ جہاں دن رات کے اوقات میں اتنا فرق نہ ہو کہ تاریخ ہی بدل جائے تو اسے ایک مطلع کہا جائے گا۔مثلاً جب ہمارے یہاں دن ہوتا ہے تو امریکہ میں رات ہوتی ہے ،اس لیے دونوں کے مطلع الگ ہیں ،اسی طرح سعودی عرب میں بھارت سے ڈھائی گھنٹے بعد بعد رات آتی ہے اس لیے یہ ممکن ہے کہ بھارت میں چاند دکھائی نہ دے لیکن ڈھائی گھنٹے بعد سعودی عرب میں دکھائی دے جائے تو یہ الگ مطلع کہلائے گا۔اس لیے سعودی عرب کے چاند پر ہم روزہ شروع نہیں کرسکتے۔حالانکہ وہاں کعبہ ہے ۔ایک مسلمان کے دل میں کعبے کے احترام و اکرام کے باوجود اسلامی احکامات کی عمل آوری میں اس کا خیال نہ کیا جائے گا۔

مطلع ابر آلود ہونے کی شکل میںاور کسی جگہ سے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کی خبر نہ آنے کی شکل میں ۳۰ شعبان کوزوال صبح تک خبر کا انتظار کیا جائے گا اور کچھ نہیں کھایا پیا جائے گا۔اگر چاند ہونے کی خبر آجائے تو روزہ مکمل کیا جائے گا ورنہ روزہ ختم کردیا جائے گا۔چاند کے ہونے کی خبر نہ ملنے کی صورت میں روزہ نہیں رکھا جائے گا۔

اگر مطلع صاف ہو تو ایک شخص کی گواہی کافی نہ ہوگی بلکہ بہت سے لوگوں کی گواہی پر اعتبار کیا جائے گا۔

اگر کسی نے کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اس نے چاند دیکھا ہے،اور دونوں لوگ عاقل بالغ قابل اعتبار ہیں تو گواہی تسلیم کرلی جائے گی اسے فقہ کی زبان میں شہادت علی لشہادۃ کہتے ہیں۔

کسی ملک کی روئت ہلال کمیٹی،کسی اسلامی ملک کے سربراہ،کی جانب سے چاند کے ہونے کے اعلان کا اعتبار کیا جائے گا۔

اگر کسی وجہ سے کسی شخص کو ۲۹ شعبان کو چاند ہونے کی خبر ملی اور روزہ رکھ لیا گیا لیکن بعد میں تحقیق ہوئی کہ وہ چاند غلط تھا تو ایک روزہ زیادہ رکھا جائے گا ۔خواہ روزوں کی تعداد اکتیس ہوجائے۔مثال کے طور پر احمد نے ۲۹ شعبان کو خبر پاکر اگلے دن روزہ رکھ لیا ،جب کہ وہ خبر غلط تھی ۔لیکن احمد کو معلوم نہ تھا کہ خبر غلط ہے ۔باقی لوگوں نے نہیں رکھا۔ انھوں نے ۳۰ شعبان کے بعد ہی رکھا۔ اس طرح احمد کا ایک روزہ باقی لوگوں سے زیادہ ہوا ۔اب رمضان کا چاندبھی ۳۰ کا ہوا ۔جب کہ احمد کے ۳۰ روزے ۲۹ رمضان کو پورے ہوگئے ۔ تب بھی احمد کو ۳۰ رمضان کا روزہ رکھنا ہوگا۔

چاند دیکھنے کا اہتمام کیجیے۔اس میں اجر ہے ،ہمیں اجر کی ضرورت ہے ۔چھوٹی چھوٹی سنتیں بھی ادا کیجیے۔ہر سنت کو ادا کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔اس کی خوشی ہمارے لیے جنت کا سامان ہے۔ہم انسان ہیں ،ہمارے اندر بشری کمزوریاں ہیں ۔صبح سے شام تک نہ معلوم کتنے گناہ ہوتے ہیں ۔اس لیے جب بھی ثواب حاصل کرنے اور اجر سمیٹنے کا موقع ملے ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔یہ اجر اکٹھا ہوکر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔انشاء اللہ

سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
9897334419،9758219175