بابری مسجد معاملہ: سبرامنیم سوامی کی مداخلت کار کی درخواست پر فیصلہ ٹلا
ممبئی: بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل کی گئی عرضداشت پر آج ایک بار پھر سماعت عمل میں آئی جس کے دورکنی بینچ کے جسٹس ارون مشراء اورجسٹس امیتوارائے نے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی مداخلت کار کی درخواست پر کوئی کارروائی نہ کرتے ہوئے معاملے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیئے ملتوی کردی نیز مداخلت کار کی عرضداشت داخل کرنے والے دیگر فریقین کو کہا کہ ان کی درخواستوں پر معاملے کی سماعت کے دوران فیصلہ کیا جائے گا ۔
واضح رہے کہ رام مندر تعمیر کی حمایت میں سبرامنیم سوامی کی جانب سے بطور مداخلت کار کی درخواست پر جمعیۃ کے وکلاء نے شدید مخالفت کی تھی جس کے بعد اس پر فیصلہ ہونے والا تھا لیکن آج ایک با رپھر جمعیۃ کی مداخلت کے بعد سبرامنیم سوامی کی عرضداشت پر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا اور معاملے کی سماعت ملتوی کردی گئی جس سے سبرامنیم سوامی کو بڑا جھٹکا لگا ہے کیونکہ گذشتہ کئی سماعتو ں سے وہ لگاتار عدالت سے مداخلت کار بننے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں تھے ۔ یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اخبار نویسوں کو دی ۔
گلزار اعظمی کے مطابق جمعیۃ علماء کی جانب سے آج سینئر وکیل نتیا راما کرشنن اور ایڈوکیٹ ارشا حنیف ، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد علی سپریم کورٹ میں پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا میں موجود تھے ۔
خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ ء کی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیر فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ گذشتہ برسوں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیاتھا ۔متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر آج سماعت عمل میںآئی ۔
سید نصیر فیض آبادی اور مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری کے انتقال کے بعد صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش مولانا اشہد رسیدی اس معاملے میں مدعی بنے ہیں ۔