غالب ایک الہامی شاعر ہیں:پروفیسر شارب ردولوی
لکھنؤ یونیورسٹی میں منعقد ملک زادہ منظور احمد یادگاری خطبہ
لکھنؤ : کناڈا سے تشریف لائے معروف محقق اور ادیب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شعبہئ اردو لکھنؤ یونیورسٹی میں منعقد ملک زادہ منظور احمد یادگاری خطبے میں بیان کیا کہ غالب نئے انداز بیان کے ترقی پسند شاعر تھے۔ کلام غالب کی باقاعدہ تفہیم کے لئے غالب کے مزاج کو سمجھنا اور غالب کی شاعری میں سومنات خیال کو درک کرنا بے حد مشکل ہے۔”غالب کا انداز“ کے عنوان سے منعقد اس یادگاری خطبے کی صدارت انٹیگرل یونورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید وسیم اختر نے کی۔اس تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ غالب کے کلام کو سمجھنے کے لئے فارسی زبان سے آشنائی ضروری ہے۔غالب کے انداز بیان کی انہوں نے اردو شاعری کے ساتھ ساتھ فارسی کلام میں بھی نشاندہی کی۔انہوں نے کہا کہ غالب ایک الہامی شاعر ہیں۔عبد الرحمن کے قول ”ہندوستان کی دوآسمانی کتابیں ہیں ایک ویدمقدس اور دوسرے دیوان غالب“کے پس منظر میں کہا کہ یہ بات غالب ؔ پہلے ہی اپنی شاعری میں کہہ چکے تھے:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
شعبہئ اردوکے صدر ڈاکٹر عباس رضا نیّر نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے مرزا غالب اور ملک زادہ منظور احمد کے مختلف کارناموں پر روشنی ڈالی۔ اور ملک زادہ منظور احمد کی ادبی خدمات سے روشناس کرایا۔ انھوں نے غالب کی شاعری کے حوالے سے غالب کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا۔ یعنی ایک وہ دور جب وہ مرزا نوشہ کہلائے، دوسرے اسد اور پھرمرزا غالب کی شکل میں پہچان ہوئی۔ان میں تیسرا دور سب اہم اور آفاقی دور تھا۔