فساد کے وقت حوصلہ دیا اوراب آشیانہ: مظفر نگر فساد متاثرین نے کہا، شکریہ مولانا مدنی
نئی دہلی:صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے آج مظفر نگر فساد میں بے گھر ہوئے مزید 66خاندانوں کو آشیانہ فراہم کرتے ہوئے باغونوالی ضلع مظفرنگر میں مکانات کی چابیاں ان کے حوالہ کیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس ہولناک فساد میں ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے تھے اوران میں بڑی تعدادایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے خوف ودہشت کے سبب واپس اپنے گھروں کو لوٹنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ لوگ اب تک مختلف جگہوں پرانتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے تھے۔ جمعےۃ علماء ہند نے اپنی دیرینہ روایت کے مطابق ابتداء ہی سے ان کی ریلیف و امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مختلف مقامات پر311مکانات،مسجد اور مکتب کی تعمیر کرواکر متاثرین کو ان میں آباد کیا جاچکا ہے۔ مولانا مدنی نے 28 مارچ 2019 کو 151مکانوں پر مشتمل ایک اور مجوزہ جمعیۃکالونی کامظفرنگر کے باغونوالی گاؤں میں افتتاح کیا تھا،اس وقت ان میں سے تیارشدہ85 مکانوں کی چابیاں متاثرین کے حوالہ کی جاچکی تھیں، درمیان میں کورونا کی وجہ سے بازآبادکاری کاکام قدرے متاثررہا اور آج مولانا مدنی نے بقیہ 66 مکانوں کی چابیاں متاثرین کے حوالہ کیں، ساتھ ہی اسی کالونی میں متاثرین کے بچوں کی دینی تربیت کے لئے مکتب اور پنج وقتہ نماز کے لئے ایک مسجد کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس طرح سے اب تک مظفرنگرفساد متاثرین کے لئے466مکانات تعمیر کرکے ان میں متاثرین کو بسایا جاچکا ہے، فساد متاثرین کی نئے گھروں میں منتقلی سے متعلق منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ 27 /اگست 2013ء میں اترپردیش کے شہر مظفرنگر میں جو فسادات ہوئے انہیں اس لئے بھی بدترین فسادات کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ اپنی جان کے خوف سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادنے اپنے آبائی گھروں سے نقل مکانی کی، ان فسادات میں پولس نے حسب معمول بے حسی اور جانب داری کامظاہرہ کیا۔ انہوں نے آگے کہا کہ جب مظفرنگر میں فسادہوا ریاست میں اکھلیش یادوکی سرکارتھی، ملک کی جمہوری تاریخ میں پہلی بارایسا ہواکہ جب کسی سرکارنے فسادمیں مارے گئے افرادکے اہل خانہ کو فی کس دس لاکھ روپے معاوضہ دیا اور ایسے تقریباڈھائی ہزارلوگوں کو جو راحتی کیمپوں میں رہ رہے تھے انہیں بھی فی کس پانچ لاکھ روپے کا معاوضہ ریاستی سرکارسے ملامولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ان 24افرادکو جو لاپتہ تھے اور انتظامیہ جنہیں مردہ تسلیم نہیں کررہی تھی ہمارے اصرارپر اکھلیش سرکارنے نہ صرف یہ کہ انہیں مردہ تسلیم کرلیا بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی دس لاکھ روپے فی کس معاوضہ دیا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند حالات کے ہرنازک موڑ پر ہمیشہ ملک کے مظلوموں سے قدم سے قدم ملاکر کھڑی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا (انشاء اللہ)۔جمعےۃ علماء ہند ایک مذہبی جماعت ہے لیکن یہ اکثریت اوراقلیت کے امتیاز سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بنیادپر خدمت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے خوف وہراس کی وجہ سے اپنے گھروں کو جانے سے انکارکردیا تھا وہ لوگ روزگارسے بھی پریشان تھے اس لئے ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے لئے شہر سے قریب مکانات بنائے جائیں تاکہ انہیں روزگارتلاش کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں فسادات کے سلسلے درازتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس لئے مسئلہ کا حل یہ قطعی نہیں ہے کہ لوگ اپنے گاؤں کو چھوڑ دیں۔کیوں کہ ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے امن واتحاد اور محبت کا گہوارہ رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔مذہبی رواداری ہندوستان کی بنیادی شناخت ہے۔ٓآج کے حالات میں یہ بہت ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا کو بحال کرنے کے لئے سیکولر اور انصاف پسند لوگ آگے آئیں۔انہوں نے کہا کہ منافرت کی زمین پر اب محبتوں کے گلاب اگانے کی ضرورت ہے ہم اسی طرح فرقہ پرستوں طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ایک مستقل طبقہ ہر حکومت کے دورمیں سرگرم رہا جس میں کبھی مسلمانوں کو سکون سے جینے نہیں دیا، فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے، ملک کا کوئی شہرایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کا خون نہ بہا ہو، مولانا مدنی نے کہا کہ فرق اتنا ہے کہ اب سب کچھ کھلے طورپر ہورہا ہے، ایک سیکولردستورکی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کو اکثریت کی طرح یکسانیت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق نہیں دیا جارہا ہے، سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والے ملک کے لئے یہ انتہائی شرمناک ہے،مولانا مدنی نے کہا کہ15اگست کو ہم نے ملک کی آزادی کے پچھترسال پوراہونے کا جشن روایتی جوش وخروش سے منایا ہے لیکن کیا یہ وہی آزادی ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھاتھا؟ نہیں یہ وہ آزادی ہرگز نہیں ہے جس کے لئے ہمارے اسلاف نے عظیم قربانیاں دیں یہاں تک کہ ہنستے ہنستے وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے تھے۔
مولانا مدنی نے جمعیۃ کی بازآبادکاری مہم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہا پورے ملک میں جب جب ملک و ملت پر کوئی افتاد نازل ہوئی جمعیۃ علماء ہند بلا تامل انسانی قدروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے میدان عمل میں آجاتی اور متاثرہ افراد کی ریلیف نیز بازآبادکاری کے لئے جس طرح عملی سطح پر اپنی خدمات پیش کرتی رہی ہے یہ ہندوستان کی ملی جماعت کے لئے بے نظیر ہی نہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہے۔خاص طور پر گزشتہ دو سالوں میں کیرالا میں 123مکانات کی مرمت اور 85 مکانوں کی تعمیر کی، جس میں ایک مکان کی مرمت پہ تقریبا ایک لاکھ روپے جبکہ ایک نئے گھر کی تعمیر پہ چار لاکھ کا روپے کا صرفہ آیا، دہلی فساد متاثرین کو 130 مکانات اور مساجد کی تعمیر، آسام میں 520مکانات 10 مساجد اور مختلف علاقوں میں مکاتب کی بھی تعمیر کرائی۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹرمیں سیلاب متاثرہ علاقوں میں جمعیۃعلماء ہند کے نمائندے اور رضاکار امداداور راحت رسانی کے کام میں مصروف ہیں کوکن کے بعض علاقوں میں ہزاروں کی تعدادمیں لوگ بے گھر ہوئے ہیں ہم نے ان کی بازآبادکاری کا بھی خاکہ تیارکرلیاہے اور اس کے لئے دوکروڑروپے کا فنڈبھی مختص کیا جاچکاہے، انہوں نے آخرمیں کہا کہ ملک میں قدرتی آفات کی شکل میں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے جمعیۃعلماء ہند ملک کے عوام کے ساتھ کھڑی نظرآتی ہے، ہر چند کہ یہ ایک مذہبی تنظیم ہے لیکن امداداور راحت رسانی کا ہر کام وہ مذہب سے الگ ہٹ کر انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے اتحاد اور یکجہتی اس کا نصب العین ہے اور سیکولرازم کی بقاوتحفظ اس کا ہمیشہ سے اولین مقصدرہاہے۔ ہمارے بزرگوں نے فرقہ پرستی کے سامنے کبھی سرنہیں جھکایا۔ مولانا مدنی نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ اگر یہ سب کچھ اسی طرح چلتارہا تو کل ملک کو ایک سنگین تباہی سے دوچارہونا پڑسکتاہے، انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ وہی ملک ترقی کرتاہے جو اپنے شہریوں کو امن وامان کے ساتھ جینے کی ضمانت دیتاہے، انصاف کے دوپیمانے نہیں رکھتااور اکثریت واقلیت میں کوئی تفریق نہیں کرتا، انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند ایک مذہبی تنظیم ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہم قوم کو بیداتوکرسکتے ہیں، ملک میں جوکچھ ہورہا ہے اورجس طرح آئین کو رونداجارہا ہے اس پر کوئی بھی انصاف پسند خاموش نہیں رہ سکتا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کی تاریخ میں جن کا دوکوڑی کا بھی حصہ نہیں ہے وہ ملک کو بربادکررہے ہیں۔